|
منگل کی شب جنوبی کوریا میں جب مارشل لا نافذ ہونے کی خبر آئی اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ارکان اور سیکیورٹی اہل کاروں کی انہیں روکنے کی کوشش کے مناظر آئے تو یہ سب کچھ بہت اچانک معلوم ہو رہا تھا۔
چند ہی گھنٹوں میں پارلیمنٹ سے مارشل لا منسوخ بھی ہو گیا لیکن اس کے بعد بدھ کو بھی سیاسی ہنگامہ خیزی برقرار ہے۔
اپوزیشن نے صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک جمع کرادی ہے اور ان سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ عام طور پر اپنے ہمسایہ ملک شمالی کوریا کے برعکس آزادی اور ترقی کی وجہ سے شناخت رکھنے والے جنوبی کوریا میں مارشل لا نافذ ہونے کی خبر کئی لوگوں کے لیے حیران کن ثابت ہوئی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب جنوبی کوریا میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ لیکن جس تیزی سے اس کی منسوخی ہوئی اس سے ملک کے سیاسی ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے۔
جنوبی کوریا میں پیش آنے والی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اس کے حالیہ سیاق و سباق اور سماجی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
حالات کب بگڑنا شروع ہوئے؟
گزشتہ چند ماہ سے سیاست نہیں بلک صحت کا مسئلہ جنوبی کوریا کے لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز تھا۔
اس کی بنیادی وجہ ہزاروں جونیئر ڈاکٹرز کی ہڑتال تھی جنھوں نے مریضوں کے طبی معائنے اور آپریشن وغیرہ سے انکار کردیا تھا۔ اس وجہ سے پورے ملک کے اسپتالوں میں مریضوں کو مسائل کا سامنا تھا۔
جنوبی کوریا کو صحت سے متعلق بعض شدید چیلنجز کا سامنا ہے جس میں ڈاکٹروں کی ہڑتال ایک بحران بن کر سامنے آئی۔
جنوبی کوریا ان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں زیادہ عمر والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں نوجوان آبادی سکڑتی جارہی ہے۔ جنوبی کوریا میں شاید ہی ایسا کوئی خاندان ہو جس کے فرد کو مستقل طبی دیکھ بھال کی ضرورت نہ ہو۔
حکومت نے میڈیکل کے طلبہ کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف ڈاکٹروں کی ہڑتال رواں برس 20 فروری سے جاری ہے۔
صدر یون کی حکومت نے ہڑتال پر سخت مؤقف اختیار کیا اور ڈاکٹروں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے ہڑتال ختم نہ کی تو ان کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے ہڑتال کو ’’اپنے سماج کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا تھا۔
مسئلہ بنیادی طور پر یہ تھا کہ حکومت جنوبی کوریا میں میڈیکل کالجز کے داخلوں کی تعداد سالانہ 2000 سے بڑھا کر 3058 کرنا چاہتی تھی۔ اس منصوبے کا مقصد تھا کہ ملک میں 2035 تک 10 ہزار مزید ڈاکٹر آجائیں گے کیوں کہ بڑھتی عمر والے افراد کی تعداد میں اضافے سے صحت کے نظام پر دباؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔
SEE ALSO: جنوبی کوریا: ناکام مارشل لا کے بعد صدر کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا میں ایک ہزار افراد کے لیے دو ڈاکٹر ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں 3.7 کی اوسط سے بہت کم ہے۔
ہڑتال کرنے والے زیرِ تربیت ڈاکٹرز اس فیصلے کی مخالفت اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافے سے مسابقت بڑھے گی اور وہ مریضوں کا بلا ضرورت علاج کرنے لگیں گے۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے جونیئر ڈاکٹر اس لیے ہڑتال کر رہے ہیں کہ حکومتی اقدمات سے انہیں اپنی آمدن کم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات
ڈاکٹروں کے احتجاج سے پیدا ہونے والی بے چینی اس وقت حیران کُن طور پر ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گئی جب صدر نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا۔
یون نے منگل کو جب کسی وارننگ کے بغیر مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا تو اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ’ریاست مخالف‘ قوتوں کو ختم کردیں گے۔ انہوں نے اپوزیشن کی مرکزی جماعتوں پر حریف ملک شمالی کوریا سے مدد حاصل کرنے کا الزام بھی لگایا۔
لیکن یون نے اپنی تقریر میں شمالی کوریا اور اپوزیشن کے اس سے روابط کے بارے میں الزامات کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ یون کا یہ دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرکے ہی اس سے درپیش جوہری خطرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
جنوبی کوریا میں 1980 کی دہائی میں ایسے سخت گیر حکمران رہے ہیں جنہوں نے ملک کے اندر اختلافِ رائے اور سیاسی مخالفین کو قابو کرنے کے لیے شمالی کوریا جیسے اقدامات کیے ہیں۔
SEE ALSO: جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے اعلان کردہ مارشل لا منسوخ کردیا
یون کو اپنے سیاسی ایجنڈا پر عمل میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کیوں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی برتری ہے جب کہ صدر اور ان کی اہلیہ کو کرپشن اور دیگر الزامات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں صدارتی نظام رائج ہے جس کے مطابق صدر کو براہِ راست الیکشن سے منتخب کیا جاتا ہے جب کہ 300 رکنی پارلیمنٹ کے 80 فی صد ارکان کا انتخاب بھی براہ راست ہوتا ہے۔ بقیہ 20 فی صد ارکان متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت منتخب ہوتے ہیں۔
صدر براہ راست منتخب ہوتا ہے اس لیے پارلیمنٹ میں اسے عددی اکثریت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے جس جماعت کا صدر ہو اس کا پارلیمنٹ میں اقلیت میں ہونا ممکن ہے۔
صدر کی سیاسی مشکلات
مارشل لا کا اعلان ہونے کے بعد ہی کئی مبصرین نے اسے صدر کی جانب سے سیاسی مشکلات سے نکلنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
صدر یون اور ان کی اہلیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2022 کے پارلیمانی ضمنی انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدوار میدان میں اتارنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی جماعت پیپل پاور پارٹی پر دباؤ ڈالا۔
ان الزامات کی وجہ سے یون کی مقبولیت میں کمی آئی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ یون نے آئندہ انتخابات میں اپنے ممکنہ حریف لی میونگ کے مزید مضبوط ہونے کے خطرے کی وجہ سے انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔ یون ان الزامات کی تردید کرچکے ہیں۔
ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ صدر یون کو 2022 سے اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد میں مشکل کا سامنا ہے۔ کیوں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے جو مسلسل ان کے فیصلوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی مارشل لا کے فیصلے کی مخالفت میں تنہا نہیں تھی بلکہ حکمران جماعت کے بھی کئی ارکان نے اس اقدام کے خلاف ووٹ دیا جس کی وجہ سے چند گھنٹوں کے اندر ہی مارشل لا ناکام ہوگیا۔
تاریخی اسباب کیا ہیں؟
مارشل کے خلاف فوری ردِ عمل کے بارے میں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا تعلق صرف موجودہ حالات سے نہیں۔ جنوبی کوریا میں مارشل لا کے خلاف پائی جانے والی حساسیت کے تاریخی اسباب بھی ہیں۔
جنوبی کوریا 1980 کی دہائی میں ایک جمہوریت بنا تھا۔ یہاں آج بھی سول معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حساس موضوع ہے۔
سن 1950 سے 1953 تک کوریئن وار کے بعد جنوبی کوریا میں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس دوران کئی مرتبہ مارشل لا نافذ کیے گئے جن میں حکومت مخالف احتجاج روکنے کے لیے فوج اور ٹینکوں کو بھی سڑکوں پر طلب کیا گیا۔
لیکن گزشتہ کئی برسوں سے اب ان مناظر کو دہرانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جنوبی کوریا کے آمر حکمران پارک چنگ ہی نے ملک پر لگ بھگ 20 سال حکومت کی۔ وہ 16 مئی 1961 کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے تھے اور یہ ملک کی پہلی فوجی بغاوت تھی۔ انہوں نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں کئی مرتبہ مارشل لا نافذ کیا۔ 1979 میں پارک چنگ ہی کو ان کے انٹیلی جینس چیف نے قتل کردیا تھا۔
اس کے دو ماہ بعد ہی میجر جنرل چن دو ہوان نے دسمبر 1979 میں ملک میں دوسری فوجی حکومت قائم کی۔ اقتدار سنبھالنے کے اگلے ہی برس چن دو ہوان نے جمہوریت کے حامیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جس میں کم از کم 200 افراد کی جانیں گئیں۔
بعد ازاں 1987 میں چن کی حکومت کو احتجاج کے بعد براہِ راست صدارتی اتنخاب کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ چن دو ہوان کے قریبی ساتھی اور 1979 کی بغاوت میں ان کے دست راست رو تائی وو 1987 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں منتخب ہوگئے۔ ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے مدِ مقابل لبرل اپوزیشن کے ووٹ آپس ہی میں تقسیم ہوگئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی تقسیم کے باوجود مارشل لا یا فوج کی سول امور میں مداخلت کے خلاف جنوبی کوریا میں جو حساسیت پائی جاتی ہے اس کا تعلق آمرانہ دور کے تجربات سے ہے۔
انتشار میں طاقت ور حزبِ اختلاف
جنوبی کوریا میں نمایاں سیاسی رہنماؤں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی بہت عام ہے۔ لگ بھگ سبھی سابق صدور یا ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کے اقتدار ختم ہونے کے قریب یا عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔
موجودہ اپوزیشن لیڈر لی جے میونگ ایک پُر جوش لبرل ہیں جو 2022 کے انتخابات میں بہت کم مارجن کے ساتھ صدر یون سے ہارے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات کا بھی سامنا رہا۔
لی پر رواں برس چاقو سے حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد ان کی ایک سرجری بھی ہوئی۔ ان کا مؤقف ہے کہ صدر یون نے ملک میں سیاسی تقسیم کو ہوا دی ہے اور ملک کی پیدا ہونے والی کشیدہ سیاسی فضا کو مزید آلودہ کیا ہے۔
گزشتہ ماہ لی جے میونگ کو صدارتی مہم کے دوران غلط بیانی کے الزام میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر سزا ہوئی تھی۔ انہیں کرپشن اور فوجداری الزامات کے تین مقدمات کا سامنا ہے۔
یہ تاحال واضح نہیں کہ سپریم کورٹ مارچ 2027 کے انتخابات تک لی جے میونگ کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کرے گی یا نہیں۔ لی اپنے خلاف الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ مارشل لا کے نفاذ اور منسوخی کے بعد سیاسی حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ تاہم اس اقدام سے یون کے خلاف پیدا ہونے والا ماحول اور ممکنہ طور پر ان کے اقتدار کے جلد خاتمے کی صورت میں اگر قبل از وقت صدارتی انتخاب ہوتا ہے تو یہ لی کے لیے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے اہم موقع ہو گا۔
بدھ کو لی جے میونگ نے دیگر ارکان کے ساتھ اسمبلی کی جانب بڑھنے اور دیوار پر چڑھ کر عمارت میں داخل ہونے کی لائیو اسٹریمنگ بھی کی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ صدر یون نے جس سیاسی کشمکش سے بچنے کے لیے انتہائی قدم اٹھایا تھا اس سے حالات سنبھلنے کے بجائے ان کے لیے مزید ناسازگار ہوگئے ہیں اور اپوزیشن کی سیاسی حیثیت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگئی ہے۔
اس تحریر کے لیے معلومات ایسوسی ایتڈ پریس سے لی گئی ہیں۔