یوروایشین امور کے ماہر پروفیسر ایڈورڈ لازرینی نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین میں حالات ممکنہ فوجی ایکشن کی طرف جا رہے ہیں اور حالات کی خرابی کی تمام ذمہ داری روس کے صدر ولادی میر پیوٹن پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ روس یوکرین کو ایک طفیلی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے جو مختلف تنازعات میں یورپ کے بجائے ماسکو کے ساتھ کھڑی نظر آئے۔
'وائس آف امریکہ' کے اردو ریڈیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں 'انڈیانا یونیورسٹی' میں سنٹرل یوروایشین ڈیپارٹمنٹ میں اکیڈمک اسپیشلسٹ اور 'سائنر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار انر ایشین اسٹڈیز' کے ڈائریکٹر ایڈورڈ لازرینی نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں روس کے حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرین کی فورسز کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے اگر روسی صدر حقیقت میں باغیوں کی پشت پناہی نہ کریں۔
بحران کے پس منظر اور باغیوں کے لیے روسی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے ماہر تجزیہ کار نے کہا کہ روس کرائمیا کے نزدیک اپنی سرزمیں پر ایک جدید بحری اڈہ بنا رہا ہے اور کرائمیا میں داخل ہونے کے لیے اسے مشرقی یوکرین سے گزرگاہ چاہیے کیونکہ روس کے پاس کرائمیا جانے کا زمینی راستہ موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روس یوکرین کو الگ کرکے اپنا حصہ بنانے کی خواہش نہیں رکھتا تاہم وہ چاہتا ہے کہ یوکرین ایک ایسی ریاست ہو جو مختلف مسائل پر یورپ کے بجائے ماسکو کی حمایت کرے۔
خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یورپ میں امریکی فوج کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل بین ہوجز نے گزشتہ روز برلن میں فوجی اور سیاسی رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نیٹو کو تباہ کرنا چاہیے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہ مشرقی یوکرین کی طرح کی ایک ’’ہائبرڈ وار‘‘ نیٹو کے کسی رکن ملک کے ساتھبھی شروع کر سکتے ہیں تاکہ اتحاد کا عزم آزمایا جا سکے۔
پروفیسر ایڈورڈ لازرینی نے امریکی کمانڈر کے خدشات کی تائید کی اور کہا کہ صدر پیوٹن دنیا کے ساتھ معاملات میں مسکراہٹوں کا تبادلہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے اقدامات ان کے وعدوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روس کبھی نہیں چاہیے گا کہ اس کی سرحد کے نزدیک نیٹو موجود ہو۔
پروفیسر لازرینی نے کہا کہ اگر امریکہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یوکرین یہ ہتھیار لے کر روس پر چڑھائی نہیں کر رہا بلکہ اپنا دفاع کرنے میں استعمال کرے گا۔ ان کا کہنا تھا اس وقت یوکرین کو صرف اسلحے نہیں بلکہ معاشی امداد کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مسلسل جنگ کی صورت حال نے شہریوں کی زندگی دوبھر کردی ہے۔