پاکستان کے نصف سے زائد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک کسی بھی انتخابی امیدوار کی سب سے اہم خصوصیت اس کا ایمان دار اور دیانت دار ہونا ہے۔
وائس آف امریکہ کے یوتھ سروے میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ وہ ووٹ ڈالتے وقت اُمیدوار میں کیا خوبیاں دیکھتے ہیں۔
نوجوانوں کے پسندیدہ امیدوار کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے سامنے مختلف آپشنز رکھے گئے تھے۔
سروے کے مطابق 56 فی صد پاکستانی نوجوانوں کے نزدیک اُمیدوار کو ایمان دار اور دیانت دار ہونا چاہیے۔
صرف 11 فی صد نوجوانوں کے نزدیک انتخابی امیدوار کی اہم ترین خصوصیت عوامی ضروریات کی سمجھ بوجھ اور ہمدردی ہے۔
نوجوانوں میں سے صرف نو فی صد کا کہنا تھا کہ انتخابی امیدوار کی اہم ترین خصوصیت اس کا قائدانہ صلاحیت کا حامل ہونا اور عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ کا بنیادی کام پالیسی بنانا اور قانون سازی کرنا ہے۔ لیکن صرف چار فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک پالیسی بنانے کی اہلیت انتخابی امیدواروں کی وہ خوبی ہے جس کی بنیاد پر وہ انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان کے نوجوانوں نے سب سے زیادہ ایمان دار اور دیانت دار امیدوار کو ترجیح دی ہے جہاں 66 فی صد نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ امیدوار اعلیٰ اخلاقی معیار رکھتا ہو۔
سندھ اور خیبر پختونخوا میں 58، 58 فی صد جب کہ پنجاب میں 53 فی صد نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کے انتخابی امیدوار ایمان دار اور دیانت دار ہوں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں 18 سے 35 برس کے نوجوان رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہے جو مجموعی ووٹرز کا تقریباً 44 فی صد ہیں۔
وائس آف امریکہ کے سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستان کے 70 فی صد نوجوان آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے نوجوانوں کی ووٹنگ میں بڑھتی ہوئی دل چسپی مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
'پاکستان میں سیاسی شعور کی کمی ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ انتخابی امیدوار کے ایمان دار اور دیانت دار ہونے کی توقع بالکل درست ہے اور ایک عام تاثر بھی یہ ہے کہ نوجوان ایسا ہی امیدوار چاہتے ہیں جس میں یہ صفات ہوں۔
لیکن ان کے بقول پاکستان میں ایک مسئلہ سیاسی شعور نہ ہونے کا بھی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں لوگوں کو سیاست دانوں کی اصل ذمے داریوں کا بھی ادراک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سڑکیں بنا دینا یا پانی فراہم کر دینا ہی سیاست دانوں کا کام ہے حالاں کہ دنیا بھر میں یہ کام بلدیاتی حکومتیں کرتی ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے بھی کبھی لوگوں کو سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ارکانِ پارلیمان کا اصل کام کیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اہلیت سے زیادہ صرف دیانت داری اور ایمان داری کو اہمیت دے رہی ہے۔