پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل، صوبے کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی؟

وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کے بعد اب پنجاب میں نگران حکومت کے لیے ناموں پر غور شروع ہو گیا ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

یہ سوال بھی موضوعِ بحث ہے کہ کیا وفاقی حکومت تحریکِ انصاف کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک بھر میں بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ پر رضا مند ہو جائے گی یا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہوں گے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کے پاس سمری پر دستخط کرنے کے لیے ایک دن باقی ہے۔ بلاشبہ وقت سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ 90 روز کے اندر اگر الیکشن ہوتے ہیں تو درمیان میں رمضان کا مہینہ بھی آ ر ہا ہے۔

ان حالات میں پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرے گی؟ کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پہلے انتخابات ہو جائیں گے؟ مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتیں اب کیا کریں گی؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے سیاسی مبصرین سے بات کی ہے۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب اُنہیں پنجاب میں عام انتخابات ہی نظر آ رہے ہیں کیوں کہ اب گورنر پنجاب سمری پر دستخط نہ بھی کریں تب بھی پنجاب اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اب پنجاب میں نگران سیٹ اپ پر بات ہو گی۔

سینئر تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پرویز الہٰی نے کسی کے دباؤ میں آکر اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیے ہیں کیوں کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ جمہوری ملکوں میں وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کوئی نہ کوئی عذر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب اسمبلی توڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔


سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اب تو 90 روز کے اندر پنجاب میں انتخابات ہی ہوں گے اور یہی آئینی تقاضا بھی ہے۔ اب صوبے میں انتخابی مہم چلے گی اور اس کے قومی سیاست پر بھی بہرحال اثرات مرتب ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اعتماد کے ووٹ کے بعد فواد چوہدری نے عام انتخابات کی تاریخ کے لیے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔ اس سے ایسا لگتا تھا کہ شاید اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ کچھ دیر مزید لٹک جائے گا، لیکن جمعرات کی شام اچانک اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیے گئے۔

پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی اُمور سے متعلق ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ملکی سیاست میں 75 برس سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی ایک فریق پر ہاتھ رکھتی ہے تو کبھی دوسرے فریق کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں ملک سیاسی انتشار سے دوچار ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بھی اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کر تی رہی ہے جو غیر آئینی تھی۔ اُنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ برس فروری کے بعد فوج نے بطور ادارہ سیاست میں آئندہ کبھی مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

لیکن پاکستان میں بعض حلقے اب بھی فوج کے اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اچھی سیاستی روایات سامنے نہیں آ رہیں، لیکن جو کچھ بھی ہو رہا ہے اب تک آئین کے تحت ہی ہو رہا ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کسی صورت مقررہ وقت پر الیکشن نہیں چاہتے۔ بلکہ اُن کا خیال ہے کہ جتنی جلدی الیکشن ہوں گے، اتنا ہی اُنہیں فائدہ ہو گا۔ لہذٰا اسمبلیاں تحلیل کر کے وہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی جلد انتخابات کرانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔


کیا اب بھی صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جا سکے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ عدالت میں بھی جاتا ہے تو بظاہر عدالت آئینی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ لہذٰا اب انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

افتحار احمد بھی مجیب الرحمٰن شامی کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اب گورنر پنجاب سمری پر دستخط نہ بھی کریں تو بھی پنجاب اسمبلی 48 گھنٹے پورے ہونے پر ٹوٹ جائے گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب یہ معاملہ نہ تو عدالت کے ذریعے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی گورنر راج لگ سکتا ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل کے آٹھ روز میں نگران حکومت قائم ہو جاتی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیدول کا اعلان کرتا ہے۔

کیا پورے ملک میں عام انتخابات ہو سکتے ہیں؟

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے لیے ان حالات میں بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانا مشکل نظر آتا ہے۔ کیوں کہ وفاق کے بس میں نہیں ہو گا کہ وہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نہ تو سندھ اسمبلی ٹوٹ رہی ہے اور نہ ہی بلوچستان اسمبلی، اسی طرح قومی اسمبلی کی تحلیل بھی مشکل نظر آتی ہے۔

کیا سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے تیار ہیں؟

سیاسی مبصرین کی رائے میں صوبہ پنجاب میں انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہو سکتا ہے جس کے لیے دونوں جماعتوں کو حکمتِِ عملی تیار کرنا ہو گی۔

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہر وقت انتخابات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پی ٹی آئی چونکہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اور کرتی رہی ہے اُسے تو انتخابات کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) چوں کہ مشکل فیصلے کر رہی ہے اور مہنگائی کی لہر نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے تو اس لیے شاید اُن کے لیے الیکشن میں جانا اتنا آسان نہ ہو۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں فوری الیکشن کی طرف جانے کے لیے کتنی تیار ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی پنجاب میں تنظیم کمزور ہے، لیکن اس کا سارا انحصار پاپولر ووٹ بینک پر ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) بظاہر انتخابات میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

کیا انتخابات کے بعد سیاسی استحکام آئے گا؟

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف پنجاب میں الیکشن ہار گئی تو وہ نتائج تسلیم نہیں کرے گی، کیوں کہ وہ پہلے ہی موجودہ الیکشن کمشنر پر سوال اُٹھا چکی ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف جیت گئی تو پھر وہ سیاسی مخالفین کے حوالے سے مزید جارحانہ پالیسی اختیار کرے گی اور وفاقی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھے گی۔