|
محمد ستار پشاور میں پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ ایک دیرینہ سیاسی کارکن ہیں۔ رواں برس فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا میں اے این پی دیگر جماعتوں کی طرح پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ہاتھوں بدترین شکست کا شکار ہوئی۔
محمد ستار کا کہنا ہے کہ "2008 کے عام انتخابات تک پشاور شہر میں اصل مقابلہ اے این پی اور پیپلز پارٹی سے وابستہ چند خاندانوں بشمول بلور خاندان، ظاہر علی شاہ اور ارباب خاندان کے مابین ہوتا تھا۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ستار کا کہنا تھا کہ "2013 کے انتخابات سے لے کر حالیہ انتخابات تک پشاور بالخصوص اور خیبرپختونخوا بالعموم میں نئے اور غیر معروف نوجوان چہرے اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ان روایتی خاندانوں کو بری طرح شکست دے رہے ہیں۔"
اے این پی 2008 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت تھی۔ لیکن اس کے بعد 2013، 2018 اور 2024 کے انتخابات میں اے این پی کی مقبولیت میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں نو مئی 2023 کے پرتشدد واقعات کے بعد شروع ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن کے باوجود تیسری مرتبہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو کر صوبے میں حکومت بنا چکی ہے۔ دوسری جانب اے این پی کے ساتھ ساتھ آفتاب شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی کا کوئی بھی رکن خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں بنا۔
محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان کے پشتون علاقوں تک محدود ہے جہاں وہ صرف اپنی قومی اسمبلی کی نشست بچانے میں ہی کامیاب رہی ہے۔ ان کی جماعت پارلیمانی طور پر خیبرپختونخوا میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
سن 2018 میں نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالتی قتل کے خلاف احتجاجی تحریک سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے وابستہ رہنے والے رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر بھی اس مرتبہ انتخابات میں اپنی نشستوں سے محروم ہو گئے۔
صوبے کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے تجزیہ کاروں اور قوم پرست سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اے این پی سمیت پشتون قوم پرست جماعتوں کی شکست کا جائزہ لینے کے لیے صوبے میں دو دہائیوں سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر کالعدم شدت پسند تنظیموں کے خلاف 2007 سے جاری فوجی آپریشنز اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سبب بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کی جبری بے دخلی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
خلیجی اور یورپی ممالک سے ترسیلاتِ زر سے صوبے میں نئی مڈل کلاس کا وجود، صوبے میں پھیلے ہوئے موٹر ویز کے جال سے اسلام آباد اور پنجاب کے شہروں تک رسائی میں آسانی جیسے اہم عوامل کو بھی بعض ماہرین پشتون قوم پرست سیاست کے زوال کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس سیاسی تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ پی ٹی ائی کو پہنچا ہے جب کہ نقصان پشتون قوم پرست جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو پہنچا ہے۔
'نیو پشتون ایتھنو نیشنلزم' کا وجود
اسلام آباد کی مختلف جامعات میں تدریس سے وابستہ ڈاکٹر حسن الامین خیبرپختونخوا کی سیاست میں بدلتے ہوئے رحجانات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
انہوں نے خطے میں "نیو پشتون ایتھنو نیشنلزم" (Neo-Pashtun ethno-nationalism) کے وجود پر اپنے ایک حالیہ مقالے میں لکھا ہے کہ فوجی آپریشنز اور دہشت گردی کے سبب بڑی تعداد میں پشتون ، ملک کے دیگر حصوں یا بیرون ملکوں مین ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
اُن کے بقول وہ بلوچوں کے ایک مخصوص حلقے کی طرح تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پاکستان کے مرکز کے قریب ہوتے گئے جس کی وجہ سے پشتون خطے میں معاشی، سیاسی، سماجی اور مذہبی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
SEE ALSO: بھٹو حکومت کے خلاف تحریک اور بیگم نسیم ولی خان کا 'کالا دوپٹہ'حسن الامین کے بقول روایتی پشتون قوم پرست جماعتوں، مثلاً اے این پی اور پی کے میپ نے پاکستانی شناخت یا پاکستانیت کی جانب ایک 'بائبرڈ بیانیہ' رکھا ہوا ہے مگر انہی جماعتوں کا مرکز میں وفاقی جماعتوں کے ساتھ مسلسل اتحاد کارکنوں کو مایوس کر رہا ہے۔ یا تو وہ سیاست کو خیرباد کہہ رہے ہیں یا دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
کچھ کارکنوں نے پی ٹی ایم جیسی ان نئی ابھرنے والی قوم پرست تحریکوں میں شمولیت اختیار کی ہے جو خطے میں 'پشتون نیو ایتھنونیشنلزم' کی تشکیل کر رہی ہے۔
حسن الامین لکھتے ہیں کہ "ایک جانب روایتی قوم پرست جماعتوں کی رہنمائی خوانین اور زمینداروں کا ایک طبقہ کر رہا ہےجب کہ ان کے مقابلے میں خطے میں ابھرتی ہوئی نئی مڈل اور لوئر کلاس کے نوجوان پشتون نیو ایتھنونیشنلزم کی تحریکوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔"
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ روایتی پشتون قوم پرست جماعتیں سیکولر رحجانات کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اور ثقافتی تناظر میں سرحد کے دونوں پار افغان شناخت اور پشتون ولی (پختونوں کا روایتی ضابطہ اخلاق) پر زور دیتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں نئی ابھرنے والی پشتون قوم پرست تحریکیں سیکولرازم پر زیادہ زور دیے بغیر ملک کے اندر پشتونوں کے سیاسی بیانیے اور آئین پسندی کی بات کرتے ہیں۔
ان کے بقول پشتون نیو ایتھنو نیشنلزم پاکستانی سیاست کے تناظر میں جن دو پہلوؤں کا اجاگر کرتی ہے۔ ان میں پشتون شناخت پر زور اور پاکستان میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا شامل ہے۔
ابھرتا ہوا مڈل کلاس طبقہ
ماضی میں پشتون قوم پرست تنظیموں کا حصہ رہنے والے تجزیہ کار حسن بونیری کہتے ہیں کہ خطے خصوصاً خیبرپختونخوا کی سیاست میں بنیادی تبدیلی کی ایک اہم وجہ طبقاتی تقسیم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پہلے لوگ خوانین کی ایما پر سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو ووٹ دیتے تھے اور انہی خوانین کی وجہ سے ان کی جماعتوں سے وابستہ ہوتے تھے۔
اُن کے بقول "صوبے میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ نوجوان نسل نے پی ٹی آئی کی شکل میں اپنے اور اپنے طبقے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت ڈھونڈ لی ہے اور اب یہ نوجوان خوانین اور زمینداروں کے تسلط سے آزاد اپنی ایک نمائندہ جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔"
پاپولیشن سائنسز کا پس منظر رکھنے والے تجزیہ کار حسن بونیری کا کہنا ہے کہ خلیجی اور دیگر ممالک میں محنت مزدوری کر کے اپنے معاشی حالات کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہونے والے تارکینِ وطن پاکستانیوں کا بھی بالعموم پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کی سیاست کی تبدیلی میں اہم کردار ہے۔
حسن الامین نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی تقریباً 32 فی صد آبادی مڈل کلاس میں شمار ہوتی ہے جب کہ پنجاب میں یہ طبقہ 36 فی صد ہے۔
نوجوان نسل کا پی ٹی آئی کی جانب جھکاؤ
حسن الامین کا خیال ہے کہ روایتی پشتون قوم پرست جماعتیں 75 سال بعد بھی تقسیمِ ہند سے قبل کے دور کی سیاست میں گھری ہوئی ہیں اور آج تک اسی دور کے تاریخی دستاویزات کا حوالہ دیتی رہتی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشتون اشرافیہ، مڈل کلاس، مزدور اور مزدوری کرنے والے طبقات کی دلچسپیاں کراچی یا پنجاب کے شہروں کی جانب جانب منتقل ہوئی ہیں۔
حسن بونیری کہتے ہیں کہ اے این پی سمیت بیش تر روایتی سیاسی جماعتیں آج کے دور کے جدید تقاضوں کے عین مطابق سیاست کے بجائے روایتی پرانی ڈگر پر سیاست کر رہی ہیں۔
ان کے بقول "سڑکوں اور موٹر ویز کے بہتر نیٹ ورکس کی وجہ سے صوبے خصوصاً پشاور ویلی پر پنجاب اور اسلام آباد تک رسائی آسان ہونے سے صوبے کی سیاست پر مرکز اور پنجاب کی سیاست اثرانداز ہو رہی ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ "میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں پشتونوں کی نئی نوجوان نسل کو قوم پرستی کی سیاست میں کوئی کشش نظر نہیں آ رہی ہے جس کی وجہ سے نئے نوجوان ووٹرز پی ٹی آئی کے قریب ہو رہے ہیں۔"
اے این پی کے کارکن محمد ستار اپنے گھر کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اے این پی کے ایک نظریاتی کارکن ہونے کے باوجود گزشتہ دو انتخابات میں اپنے خاندان کے نوجوانوں کو پی ٹی ائی کو ووٹ دینے سے نہیں روک سکے۔
ان کے بقول "اے این پی کی قیادت ایمل ولی جیسے نوجوان کے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود نئی نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کرنے میں مسلسل ناکامی پر پارٹی کو اندرونی سطح پر سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے۔"
پشتون قوم پرست کیا کہتے ہیں؟
پشتون قوم پرست جماعتیں خصوصاً اے این پی خیبر پختونخوا میں اپنی شکست کو دھاندلی سے جوڑتے ہوئے بضد ہیں کہ انہیں ان کے طالبان مخالف نظریات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہرایا جا رہا ہے۔
اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی نے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ "ان کی جماعت اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید ایک قدم بھی چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔"
اُن کے بقول "2024 تک صوبے میں قیامِ امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف ریاست کے ساتھ کھڑے رہے اور ریاست اور وطن کے لیے گولیاں کھائیں مگر یہ ہماری غلطی اور غلط فہمی ہے کہ ریاست پشتونوں کے لیے کوئی اچھی سوچ رکھے گی۔"
خیال رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیموں کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثرہ اے این پی نے گزشتہ ادوار میں اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔
جماعت کو قائدین کی پالیسیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے نقصانات بھی اُٹھانے پڑے تھے۔ پارٹی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور، ان کے صاحبزادے ہارون بلور اور میاں افتخار حسین کے بیٹے کے علاوہ جماعت کے ارکانِ صوبائی اسمبلی اور بڑی تعداد میں کارکنوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ 2024 کے انتخابات میں بھی ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کی انٹیلی جینس رپورٹس پر احتیاظ برتنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
اس پریس کانفرنس کے بعد مارچ میں اے این پی کی جانب سے کچھ اضلاع میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے جس میں سیاست سے فوج کے کردار کے خاتمے اور آئین کی بالادستی کو موضوع بنائے رکھا گیا۔
البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت سے صوبہ بلوچستان سے ایمل ولی کو سینیٹ کا بلامقابلہ رکن منتخب کرنے پر بعض ماہرین کے مطابق یہ تاثر اُبھرا ہے کہ اے این پی اب فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے اپنے سخت گیر مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے گی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ قوم پرست جماعتوں کو انتخابی سیاست میں اپنے قدم دوبارہ جمانے کے لیے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنا ہو گی۔
بعض ماہرین کے مطابق ہر پانچ برس بعد نئے ووٹرز کے اضافے سے ان جماعتوں کی مشکلات مزید بڑھیں گی، لہذٰا اس کی پیش بندی کے لیے ان جماعتوں کو طرزِ سیاست میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔