پاکستان کے شہر کراچی میں حال ہی میں کانگو وائرس سے ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد محکمۂ صحت سندھ نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس جان لیوا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہر ممکن احتیاط کریں۔
ہلاک ہونے والے مریض کی ہسٹری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متاثرہ شخص پیشے کے اعتبار سے قصاب تھا جس کا جانوروں کے گوشت کو ہاتھ لگانا معمول تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کی ساری توجہ عید الاضحیٰ کے لیے قربانی کےجانور خریدنے پر ہو گی، ایسے میں کانگو وائرس سے ایک شخص کی ہلاکت باعثِ تشویش ہے۔
معالجین کے مطابق کانگو وائرس مویشیوں میں پایا جاتا ہے اور اس وائرس کے پھیلنے کی سب سے اہم وجہ جانور ہی ہیں، جن میں گائے، بھینس اوربھیڑ، بکریاں شامل ہیں۔
دراصل کانگو وائرس کو کریمین کانگو ہیمورہیجک فیور (سی سی ایچ ایف) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس کریمیا میں 1944 میں سامنے آیا تھا اور اس وقت اس وائرس کی موجودگی بر اعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی نظر آئی تھی جس کی بنیاد پر اس کا نام (سی سی ایچ ایف) رکھا گیا تھا۔
اس وائرس سے لگنے والی بیماری ایشیا کے کئی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے جس میں پاکستان سمیت، ایران، عراق، ترکی اور دیگر شامل ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سیدفیصل محمود کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کی انسانوں میں منتقلی کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جانوروں کے جسم میں ایک چھوٹا سا کیڑا جسے (ٹک) کہتے ہیں وہ اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو اس سے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ کسی جانور کو یہ بیماری لاحق ہو اور یہ کیڑا اس کا خون چوس رہا ہو تو وہ انسان کوکاٹنے کے بعد اس وائرس کو خون میں منتقل کردیتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں منکی پوکس کے دو کیسز کی تصدیق، یہ مرض کتنا خطرناک ہے؟دوسری صورت میں یہ جانوروں کے خون سے بھی براہ راست منتقل ہوسکتا ہے خاص کر قربانی کرتے وقت جب جانور کے جسم سے خون نکلتا ہے۔ اس کا کوئی قطرہ انسان کے ناک، منہ یا آنکھ میں چلا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔
متاثرہ جانور کی کھال میں چھپے یہ کیڑے (ٹک) قربانی کے وقت جانور کی کھال اتارنے کے دوران انسانی جلد پر چپک کر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس سے کوئی انسان متاثر ہوجائے تو پھر ایک انسان سے دوسرے میں وائرس منتقل ہونا عام بات ہے۔ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون، لعاب یا پسینے سے منتقل ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل کے مطابق اگر کانگو وائرس جانوروں کو لگ جائے تو ان میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیوں کہ اس وائرس کے باوجود بھی جانور صحت مند ہی نظر آرہے ہوتے ہیں۔
کانگو وائرس کی علامات کیا ہیں؟
چلڈرن اسپتال کے سی ای او اور ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر ثاقب انصاری کہتے ہیں کانگو وائرس کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ ساتھ گلے میں درد، نزلہ، جوڑوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد ہوناشامل ہے۔ اس کے علاوہ چہرے اور آنکھوں کا سرخ ہوجانا، جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا بھی کانگو وائرس کی علامات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگو وائرس ہوتے ہی مریض کے پلیٹیلٹس میں واضح کمی ہونے لگتی ہے اور جب یہ وائرس مریض کے بدن میں پھیل جائے تو پھر قوتِ مدافعت کم ہو جانے کے بعد ہونے والا بخار ہیمورجک فیور کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے (ناک، منہ، پیشاب کی جگہ)سے خون آنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر سید فیصل محمود کے مطابق کانگو وائرس سے متاثرہ مریض کا خون پتلا ہونے لگتا ہے جس سے خون کے بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس جگر اور گردوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ان کےبقول، کانگو وائرس کا آغاز تیز بخار سے ہوتا ہے تو اسی لیے وائرس کی بروقت تشخیص کرنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بیماری کی تشخیص کے لیے کرونا کی طرح کا ایک پی سی آر ٹیسٹ ہی ہوتا ہے لیکن اس میں خون کے نمونے لیے جاتے ہیں۔
بیماری سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟
معالجین کے مطابق اب جب عید الاضحیٰ قریب ہے اور لوگ مویشیوں کی خریداری کے لیےمنڈیوں کا رخ کریں گے تو انہیں ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے ان کا جسم مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہو۔
منڈی جاتے وقت ہلکے رنگ کا لباس پہنیں تاکہ اگر کوئی (ٹک) ان کے لباس پر ہو تو انہیں فوراً نظر آجائے۔ مویشی منڈی سے واپس آنے کے بعد اپنا بغور جائزہ لیں کہ کہیں آپ کے کپڑوں یا جسم پر کوئی ایسا کیڑا تو نہیں ہے، اس کے علاوہ آپ جو جانور خرید رہے ہوں اس کا بھی بغور معائنہ کرنا بہتر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قربانی کرتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں تاکہ خون اچھلنے کے صورت میں وہ منہ یا ناک میں نہ جائے۔ جب کہ جانور کی کھال اتارنے کے بعد اسے دور رکھیں۔ قربانی کے بعد جو گوشت سامنے ہو جس پر خون لگا ہوا ہے اسے اٹھاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ ہاتھ چہرے یا آنکھوں پر نہ لگے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق کچھ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مکمل طور پر پکائے جانے والا گوشت کھانے سے یہ وائرس انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر کوئی جانور اس سے متاثر ہے تو اس کے کچے گوشت کو ہاتھ لگاتے وقت احتیاط لازم ہے۔ ایسے جانور یا فرد جن میں یہ وائرس ہو ان سے دور رہنے اور احتیاط کرنے سے ہی اس وائرس سے بچاؤ ممکن ہے۔
کیا اس بیماری کا علاج ممکن ہے؟
ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق اگر اس وائرس کی تشخیص بروقت ہوجائے تو اس کا علاج کچھ ادویات کی مدد سے ممکن ہے جن سے وائرس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر تشخیص میں تاخیر ہو تو یہ بیماری مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں، کانگو وائرس جسمانی اعضا کو تیزی سے خراب کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب کانگو کی علامات ظاہر ہوں تو مریض کو معالج کو یہ بات ضرور بتانا چاہیے کہ حال ہی میں وہ جانوروں سے کتنا قریب رہا۔
ابھی تک اس وائرس سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسین نہیں بنائی گئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے اس سے بچا جاسکے۔
محکمۂ صحت سندھ کی جانب سے تمام ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسرز اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کو ایڈ وائزری جاری کردی گئی ہے جس میں عید الاضحیٰ کے قریب آتے ہی کانگو وائرس کے ممکنہ بڑھتے کیسز کی روک تھام کے لیے مویشی منڈیوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کےلئے آگاہی بینرز آویزاں کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
محکمۂ صحت سندھ نے عید الاضحیٰ سے قبل ہی کانگو کے ممکنہ بڑھتے کیسز کو سامنے رکھتے ہوئے تمام اسپتالوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ اگر اس وائرس کی علامات کے ساتھ کوئی مریض آتا ہے تو اس کا فوری ٹیسٹ کیا جائے اور متاثرہ فرد کو آئسولیشن میں رکھا جائے۔