پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات اور پولنگ عملے کے غائب ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریٹرننگ افسر نے اس روز پیش آنے والے واقعات کی تفصیل جمع کرا دی ہے۔
الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف کی ایک ہفتے میں مصدقہ ریکارڈ فراہم کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے اور بدھ تک تمام دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے جب کہ ریٹرننگ افسر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ این اے 75 میں کوئی نتیجہ تبدیل نہیں ہوا۔
دورانِ سماعت چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن ٹھیک ہوا تو نتیجہ جاری ہو گا۔ اگر ٹھیک نہیں ہوا تو ری پول کرا سکتے ہیں۔
منگل کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے این اے 75 کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست پر سماعت کی۔
نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز اہم دستاویز ہے اس پریس ریلیز نے سب کہانی عیاں کر دی۔ ڈسکہ میں ڈی ایس پی ذوالفقار بیگ کو انتخابی مہم کے دوران لگا کر رولز کی خلاف ورزی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پہلا الیکشن ہے جہاں 20 پریزائیڈنگ افسران غائب ہو گئے۔ پولنگ کے دوران اور بعد میں آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب سمیت سب ہی لاپتا تھے۔ تمام لاپتا پریزائیڈنگ افسران ایک ساتھ ہی سامنے آئے۔
این اے 75 کے 337 پولنگ اسٹیشنز کا کوئی رزلٹ تبدیل نہیں ہوا: ریٹرننگ افسر
این اے 75 کے ریٹرننگ افسر نے الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور رپورٹ بھی پیش کی جو الیکشن کمیشن نے تمام فریقوں کو دینے کی ہدایت کر دی۔
ریٹرننگ آفیسر نے اپنے بیان میں کہا کہ صبح تین بج کر 37 منٹ تک337 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج آر ایم ایس میں جمع ہو چکے تھے جب کہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج نہیں مل رہے تھے۔ 20 پریزائیڈنگ افسران سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایک پریزائیڈنگ افسر کے علاوہ کسی کا فون نہیں مل رہا تھا۔ یہ تمام 20 پولنگ اسٹیشنز 30 سے 40 کلو میِٹر کے احاطے میں ہیں۔
ریٹرننگ افسر نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران کو گاڑیاں فراہم کی ہوئی تھیں اور یہ ممکن نہیں تھا کہ پریزائیڈنگ افسر اکیلا ہو پولیس بھی ساتھ تھی۔ تین پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے وٹس ایپ پر ملے اور اس رات موسم خراب تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا آپ نے وائرلیس کے ذریعے رابطے کی کوشش کی؟ ریٹرننگ افسر نے جواب میں کہا کہ پولیس والوں سے بھی رابطہ نہیں ہو سکا۔
ریٹرننگ افسر نے بتایا کہ رات کو ساڑھے تین بجے لیگی امیدوار نے شکایت کی۔ پولیس افسران کا بھی تعینات عملے کے ساتھ رابطہ نہیں ہو سکا۔ بعض پریزائیڈنگ افسران کے نتائج وٹس ایپ پر بروقت آ گئے تھے۔ کچھ پریزائیڈنگ افسران کا رزلٹ صبح چھ، کچھ کا سات بجے ملا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ممبر الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی میٹریل محفوظ ہے جس پر ریٹرننگ افسر نے کہا کہ انتخابی میٹریل محفوظ ہے۔ 20 مشتبہ پولنگ اسٹیشنز میں سے 4 کلئیر ہیں، جو نتیجہ ایجنٹس کو دیا گیا وہی نتیجہ درست نکلا، چار پولنگ اسٹیشنز کے نتائج پر پریزائیڈنگ افسر کے دستخط ہیں، کچھ پولنگ اسٹیشنز کے نتائج پر انگھوٹوں کے نشانات نہیں ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ریٹرننگ افسر اب اپنے مؤقف سے ہٹ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن 16 کے بجائے تمام حلقوں کی تحقیقات کرائے۔ سارا دن ٹی وی پر رپورٹ ہوتا رہا کہ حلقہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرائیں۔ حلقے میں کرونا ایس او پیز کا بہانہ بنا کر ووٹرز کو روکا گیا۔
(ن) لیگ کے وکیل نے ثبوت اور دستاویزات جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا اور کہا کہ چند دن میں تمام دستاویزات اور ثبوت جمع کرا دوں گا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کو پورا وقت ملے گا، آپ جتنا وقت لینا چاہیں لے لیں۔
این اے 75 میں فائرنگ کی ویڈیوز کورٹ میں پیش
دوران سماعت این اے 75 میں فائرنگ کی ویڈیوز پیش کی گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ فائرنگ کے بعد ووٹرز ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔ فائرنگ کر کے پولنگ رکوائی گئی۔ خوف و ہراس پھیلا کر ووٹرز کو روکا گیا۔
ممبر پنجاب الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسر سے استفسار کیا کہ آپ نے فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کرایا؟ جس پر جواب دیا گیا کہ پولیس کسی کو شناخت نہیں کر سکی۔
پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کے وکیل علی بخاری نے دلائل میں کہا کہ پہلے کہا گیا تین ہزار ووٹوں سے جیت رہے ہیں۔ جیت رہے تھے تو دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ نوشین افتخار کی درخواست کے ساتھ کوئی تصدیق شدہ دستاویز نہیں، بہتر ہوتا کہ انتخابی نتائج کو ٹربیونل میں چیلنج کیا جاتا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ڈسکہ میں کھلم کھلا پاکستان کے آئین کو چیلنج کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے اسکواڈز موٹر سائیکلوں پر فائرنگ کرتے رہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ریٹرننگ افسر کے ریکارڈ کے مطابق 14 پولنگ اسٹیشنز کے فارمز میں ردوبدل کیا گیا۔ 20 پریزائیڈنگ افسران کو صبح ساڑھے پانچ بجے ایک ساتھ ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کرایا گیا جو آر ٹی ایس کے ذریعے فارم آئے اور جو صبح جمع کرائے گئے ان میں سے 14 میں ردوبدل ہے۔
الیکشن کمیشن کے باہر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ (ن) لیگ نے خود 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا۔ وزیرِ اعظم نے (ن) لیگ کا چیلنج قبول کیا۔
پرویز رشید کی درخواست مسترد
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید پر مشتمل الیکشن ٹربیونل نے پرویز رشید کے سینیٹ الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر سماعت کے بعد ان کی درخواست مسترد کر دی۔
پرویز رشید نے مؤقف اختیار کیا کہ ریٹرننگ افسر کو دو مرتبہ درخواست دی کہ ہم بقایاجات دینے کے لیے تیار ہیں۔ ریٹرننگ افسر کے سامنے چیک رکھے اور بتایا کہ کوئی بقایا جات لینے کو تیار نہیں ہے۔
(ن) لیگی رہنما کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض کرنے والے امیدوار کے وکیل نے ٹریبونل کے روبرو سپریم کورٹ کے عطاالحق قاسمی سے متعلق فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں 20 فی صد رقم پرویز رشید اور 50 فی صد عطاالحق قاسمی سے متعلق تھی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد ٹریبونل نے پرویز رشید کی درخواست مسترد کر دی۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے فیصل واوڈا کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کرنے پر اعتراضات مسترد کر دیئے اور انہیں سینیٹ الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا۔