شام کا شہر حلب گزشتہ کئی ہفتوں سے شہ سرخیوں میں ہے۔ اور شہر سے آنے والی تقریباً تمام ہی خبریں کچھ اچھی نہیں۔ شہر کے مشرقی علاقوں پر قبضے کے لیے گزشتہ کئی مہینوں سے جاری لڑائی بظاہر اپنے اختتام کو پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن شام کے عوام اور حلب سے بے دخل ہونے والوں کی مشکل ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔
حلب کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے جو روایات کے مطابق پانچ ہزار سال قبلِ مسیح سے آباد ہے۔ یہ شہر شام کے سب سے گنجان آباد اپنے ہم نام صوبے کا دارالحکومت ہے اور ترکی کی سرحد سے صرف 45 کلومیٹر دور ہے۔
شام میں مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے قبل حلب آبادی کے اعتبار سے شام کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔شامی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2004ء میں شہر کی آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
سنہ 2011ء کے اوائل میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ملکوں پر عشروں سے برسرِ اقتدار آمر حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا تو اس کی لپٹیں شام تک بھی پہنچیں۔
شام پر حکمران اسد خاندان گزشتہ 45 برسوں سے اقتدار میں ہے۔ موجودہ صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد ساٹھ کی دہائی میں شام کی فضائیہ کے سربراہ اور وزیرِ دفاع رہے تھے جنہوں ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور پے در پے آنے والے فوجی بغاوتوں کا فائدہ اٹھا کر 1970ء میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔
حافظ الاسد کا تعلق اسلام کے شیعہ مکتبِ فکر کے ایک فرقے علوی سے تھا جن کا شام کی آبادی میں تناسب 12 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے حافظ الاسد نے اپنے خاندان اور فرقے کے لوگوں کو اہم وزارتوں اور سکیورٹی اداروں کی سربراہی سے نوازا اور 30 سال تک اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔
حافظ الاسد کے انتقال کے بعد 2000ء میں ان کے بیٹے بشار الاسد شام کے صدر بنے اور انہوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے بڑی حد تک اپنے والد کی اختیار کردہ پالیسی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" پر عمل کیا۔
شام کی 70 سے 75 فی صد آبادی سنی العقیدہ ہے۔ جس کے باعث "عرب بہار" یعنی "عرب اسپرنگ" کے تحت شروع ہونے والی حکومت مخالف احتجاجی تحریک ابتدا سے ہی شام کی سنی اکثریت کی جانب سے برسرِ اقتدار شیعہ اقلیت کے خلاف تحریک کا رنگ اختیار کرگئی۔
حکومت مخالف تحریک کا آغاز مارچ 2011ء میں دارالحکومت دمشق میں احتجاجی مظاہروں سے ہوا جس کا دائرہ بعد ازاں ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل گیا۔ اسد حکومت نے اس احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی اور کئی شہروں میں سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ کی جس کےنتیجے میں سیاسی خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی۔
جولائی 2011ء میں مغربی ملکوں کی حمایت سے شام میں باغیوں کی باقاعدہ فوج 'فری سیرین آرمی' تشکیل دی گئی جس نے شامی فوج کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کیا۔ یہ شام میں خانہ جنگی کا نکتہ آغاز ثابت ہوا جو آج پانچ سال بعد بھی جاری ہے۔
شام کے دیگر بڑے شہروں کی طرح حلب بھی سنی اکثریتی شہر تھا۔ شہر کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت کے پیشِ نظر باغیوں اور حکومت دونوں کے لیے حلب انتہائی اہم تھا۔ فروری 2012ء میں شہر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر اسد حکومت کی فوج نے فائرنگ اور بمباری کی جس میں کئی افراد مارے گئے۔
اس واقعے کے بعد باغیوں نے شہر کی جانب پیش قدمی کی اور کئی ہفتوں کی لڑائی کےبعد شہر کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ شہر کا مغربی حصہ بدستور اسد حکومت کی حامی فوج کے پاس رہا۔ شدید لڑائی اور بمباری کے باعث حلب کے تقریباً15 لاکھ رہائشی بے گھر ہوئے۔
سنہ 2013ء میں عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم داعش نے زور پکڑا تو شام کے کئی علاقوں کی طرح حلب میں بھی داعش اور دیگر باغی تنظیموں کے درمیان جھڑپیں معمول بن گئیں۔ باغی گروہوں کی آپس کی اس لڑائی اور خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دسمبر 2013ء میں شامی فوج کے دستوں نے مشرقی حلب پر کئی حملے کیے۔ لیکن 2014ء کے آغاز پرباغی تنظیموں نے متحد ہو کر داعش کے جنگجووں کو حلب سے باہر دھکیل دیا۔
امریکہ اور مغربی ملکوں کی طرح خلیجی عرب ممالک اور ترکی نے باغیوں اور شامی حزبِ اختلاف کو ہر ممکن مدد فراہم کی۔ جب کہ اسد حکومت کی حمایت میں خطے میں اس کا واحد اتحادی ایران خم ٹھونک کر میدان میں اتر آیا۔ ایران کی فوج پاسدارانِ انقلاب نے اپنے فوجی افسران اور لبنان میں اپنی حمایت یافتہ مسلح شیعہ تنظیم حزب اللہ کے ہزاروں جنگجووں کو شامی فوج کی مدد کے لیے شام روانہ کیا۔
شام میں اس بیرونی مداخلت کے باعث وہاں جاری خانہ جنگی مزید پیچیدہ ہوتی چلی گئی جس کی سب سے زیادہ قیمت وہاں کے عوام نے ادا کی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پانچ سال سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق شام میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے زائد ہے جب کہ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
ستمبر 2015ء میں روس نے اسد حکومت کو بچانے کے لیے شام میں براہِ راست فوجی مداخلت شروع کی اور شامی فوج کی مدد کے لیے اپنے زمینی دستوں کے علاوہ جنگی جہاز بھی شام بھیجے۔
روسی فوج کے فضائی حملوں کی مدد سے شامی فوج نے 2015ء کے اختتام پر حلب سمیت باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر دوبارہ قبضے کے لیے بیک وقت کئی محاذ کھولے۔ ان حملوں میں شامی فوج کو ایران کی فوجی مشاورت کے علاوہ حزب اللہ اور عراق کی شیعہ ملیشیاؤں کے جنگجووں کی مدد بھی حاصل تھی۔
روس کی جارحانہ فوجی مداخلت نے شام کی خانہ جنگی کا پانسہ اسد حکومت کے حق میں پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا اور باغیوں کو اپنے زیرِ قبضہ کئی علاقوں سے پسپا ہونا پڑا۔
جولائی 2016ء میں شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے مشرقی حلب کے گرد اپنا محاصرہ تنگ کردیا۔ اس دوران روسی اور شامی فضائیہ نے شہر پر مسلسل بمباری کی۔ اگست کے مہینے میں باغیوں کو محاصرہ توڑنے میں کامیابی ہوئی لیکن چند روز بعد ہی شہر دوبارہ شامی فوج کے مکمل نرغے میں آگیا۔
اس دوران امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں حلب میں تین بار جنگ بندی کا اعلان ہوا تاکہ باغیوں کے زیرِ انتظام علاقوں میں پھنسے شہریوں تک امداد پہنچائی جاسکے۔ لیکن ہر بار یہ جنگ بندی صرف چند روز ہی برقرار رہ سکی اور لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی۔
نومبر کے اختتام پر شام اور روس حلب کے مشرقی علاقوں پر اپنے فضائی حملوں میں شدت لے آئے۔ اس دوران شام کی زمینی فوج اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے شہر کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔اس دوران ہونے والی شدید بمباری سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
باغی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ شامی اور روسی فوج نے بمباری اور فضائی حملوں میں جان بوجھ کر اسپتالوں، مساجد اور اسکولوں کو نشانہ بنایا اور شہر کے بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ کیا۔ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق حلب کے محصور علاقے میں ایک لاکھ سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں جنہیں پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے جب کہ شہر میں ایک فیلڈ اسپتال اور تین ڈاکٹروں کے علاوہ علاج معالجے کی کوئی سہولت نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے شامی اور روسی بمباری سے مشرقی حلب میں عورتوں اور بچوں سمیت درجنوں افراد کی ہلاکت اور شامی فوج کی اتحادی ملیشیاؤں اور باغی جنگجووں پر شہریوں کے قتلِ عام کے الزامات عائد کیے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق بمباری کے نتیجے میں مشرقی حلب کی 70 فی صد سے زائد عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے شام کے صدر بشار الاسد نے حلب کی فتح کا اعلان کیا جس کے بعد ترکی اور روس کی کوششوں سے ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں مشرقی حلب میں پھنسے باغی جنگجووں اور شہریوں کو شہر سے نکلنے کی اجازت دیدی گئی۔ لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد کئی بار تعطل کا شکار ہوا جب کہ اس دوران مشرقی حلب کے رہائشیوں کو لے جانے والی بسوں پر فائرنگ اور حملوں کے واقعات بھی پیش آئے۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اولو نے کہا ہے کہ مشرقی حلب سے منگل کی شام تک 37 ہزار 500 لوگوں کو نکالا جاچکا ہے اور شہریوں اور باغی جنگجووں کے انخلا کا عمل بدھ تک مکمل کرلیا جائے گا۔ شہر میں پھنسے لوگوں کو حلب کے نزدیک باغیوں کے زیرِ انتظام دیگر علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے جہاں امدادی تنظیموں نے ان کے لیے کیمپ قائم کیے ہیں۔
پیر کو اقوامِ متحدہ نے حلب سے شہریوں کے انخلا کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مبصرین تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عالمی ادارے کے ایک ترجمان کے مطابق مزید 20 غیر ملکی مبصرین حلب پہنچ رہے ہیں جس کے بعد وہاں انخلا کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے کے نمائندوں کی تعداد 60 ہوجائے گی۔