تحریکِ انصاف احتجاج میں شدت لا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

رواں ماہ پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاج میں شدت آئی ہے۔

  • پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے حالیہ عرصے میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی ہے۔
  • ماہرین کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم کے مسودے اور آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتجاج میں شدت آئی ہے۔
  • اپوزیشن جماعتوں کا کام احتجاج ہی ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی ایسا کرتی رہی ہیں: تجزیہ کار مظہر عباس
  • احتجاج اور جارحانہ حکمتِ عملی شروع سے ہی تحریکِ انصاف کی قیادت کا خاصا رہا ہے: تجزیہ کار سلمان غنی
  • حکومت عمران خان کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہے: تجزیہ کار چوہدری غلام حسین

لاہور -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج میں شدت اور اہم رہنماؤں کی گرفتاری کے باعث ملک میں سیاسی درجۂ حرارت ایک بار پھر بڑھ گیا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے جوڈیشل پیکج لانے کی کوششوں اور آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف کے احتجاج میں شدت آ رہی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز پر ملک کے مختلف شہروں بشمول دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں احتجاج کے دوران تحریکِ انصاف کے درجنوں کارکنوں کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔

عمران خان، علی امین گنڈا پور اور دیگر اہم رہنماؤں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مزید مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کی جانب سے اسلام آباد کی جانب مارچ اور پھر اچانک منظرنامے سے غائب ہونے کا معاملہ بھی عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

آخر تحریکِ انصاف چاہتی کیا ہے؟ کیا عمران خان ایک بار پھر جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کر رہے ہیں؟ اس کے لیے وائس آف امریکہ نے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

'اپوزیشن جماعت صرف احتجاج ہی کر سکتی ہے'

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ حکمراں اتحاد کی جانب سے پارلیمان سے جوڈیشل پیکج منظور کرانے میں ناکامی کے بعد تحریکِ انصاف نے احتجاج کا سلسلہ تیز کیا ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعت کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تھیں تو وہ بھی احتجاج کرتی رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کا احتجاج زیادہ جارحانہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اسے روکنے کے لیے زیادہ وسائل لگا رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت تحریکِ انصاف کو 'دہشت گرد' قرار دیتی ہے۔ حالاں کہ پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی والے انہیں 'ممی ڈیڈی' پارٹی سمجھتے تھے۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی احتجاج کی سیاست پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور اب جوڈیشل پیکج بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی کہتے ہیں کہ احتجاج اور جارحانہ حکمتِ عملی شروع سے ہی تحریکِ انصاف کی قیادت کا خاصا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے احتجاج میں اب تشدد کا عنصر بھی نظر آ رہا ہے۔ حکومتیں تو یہ سب برداشت کر لیتی ہیں مگر ریاست برداشت نہیں کرتی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ آٹھ فروری سے آٹھ اکتوبر تک حکومت نے جو بھی تدبیر کی، اس پر اُلٹی پڑی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تمام تر رکاوٹوں اور طاقت کے استعمال کے باوجود تحریکِ انصاف عوام کی طاقت سے اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب رہی ہے۔

حکومت کا یہ الزام ہے کہ تحریکِ انصاف 15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتی ہے۔ تاہم تحریکِ انصاف ایسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

کیا اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کی دُوریاں مزید بڑھ گئی ہیں؟

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ بظاہر اس وقت تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ شاید دونوں کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ لیکن کچھ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جس کے بعد سردمہری پھر بڑھ جاتی ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے بیانات میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ تاہم اُن کا یہ بھی الزام رہا ہے کہ مقتدر حلقے اپنے وعدوں سے مکر جاتے ہیں۔

چوہدی غلام حسین کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان پہلے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں جس کی باتیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔

اُن کے بقول حکومت کی کوشش رہی ہے کہ فوج اور تحریکِ انصاف کو لڑایا جائے اور اسی لیے اسلام آباد میں فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔ لیکن احتجاج کے دوران دیکھا گیا کہ تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے فوج کے حق میں نعرے بازی کی۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف اس وقت بند گلی میں کھڑی ہے اور اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ کیوں کہ بات چیت کے بغیر مسائل کا حل نہیں نکلتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مہنگائی کی وجہ سے تحریکِ انصاف عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔

چوہدری غلام حسین کے بقول حکومت عمران خان کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تو مقتدر حلقے بھی سوچ رہے ہیں کہ اقتدار عمران خان کے سپرد کر دیا جائے تاکہ ان کی مقبولیت کم ہو۔

مظہر عباس کے بقول اسلام آباد مکمل طور پر بند کرنے کے باوجود وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایک طرح سے ریاستی مشینری کی ناکامی ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ معاملات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لینا ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرنا پڑے گا ملک اب ان حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر یہی رحجان جاری رہا تو ملک انارکی کا شکار ہو سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ مسائل کا حل اسی میں ہے کہ تمام فریق ذاتی انا اور مفادات سے باہر نکل کر آئینِ پاکستان سے رُجوع کریں اسی میں تمام مسائل کا حل ہے۔