سینیٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ سینیٹ ’نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)‘ کے قانونی اختیار کی میعاد ختم ہونے سے پہلے اقدام کرنے میں ناکام رہا ہے، جس ادارے کا کام امریکیوں کا وسیع ٹیلی فون ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ قانون سازی میں تعطل امریکہ کے لیے غیر ضروری خطرات کا باعث بن چکا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سینیٹ کی ناکامی کے باعث ’پیٹریاٹ ایکٹ‘ کی شقوں کی میعاد اب ختم ہوچکی ہے، جسے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد نافذ کیا گیا تھا، جس کی بنا پر قومی سلامتی سے متعلق اہل کاروں کو ملک کو محفوظ رکھنے کے اختیارات میسر آئے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ اہم اختیار اب دستیاب نہیں رہا۔
ارنیسٹ نے زور دے کر کہا کہ وائٹ ہاؤس اس بات کا خواہاں ہے کہ سینیٹ جتنا جلد ممکن ہو اس قانون سازی کی منظوری دے، تاکہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے سلسلے میں ’این ایس اے‘ اپنا کام جاری رکھ سکے۔
آئندہ دِنوں کے دوران، سینیٹ ٹیلی فون پر نگرانی کے وسیع تر پروگرام سے متعلق بہتر ضوابط کی منظوری دے سکتی ہے۔
ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے قانون ساز، جو نگرانی کے پروگرام کے حامی ہیں، اُنھوں نے تعطل کا ذمہ دار سینیٹر رینڈ پال کو قرار دیا ہے، جو 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار بننے کے خواشمند ہیں۔
کینٹکی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے ایوان میں اس قانونی اقدام کی منظوری میں روڑے اٹکائے ہیں، جس قانون سازی کا مقصد اُس پروگرام میں تبدیلی لانا ہے، جس کے تحت انتظامیہ اپنے طور پر نہیں بلکہ کیس کی نوعیت کے لحاظ سے ’این ایس اے‘ ٹیلی فون کمپنیوں کو فون کا ڈیٹا فراہم کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
پال نے کہا ہے کہ آخرکار منگل تک سینیٹ نگرانی کے پروگرام میں اصلاحات کی منظوری دے دے گی۔
تاہم، اُنھوں نے اس تنازع میں کامیابی کا اعلان کیا، کیونکہ اب حکومت اپنے طور پر ڈیٹا اکٹھا نہیں کر پائے گی، جس سے مراد، بقول اُن کے، یہ ہے کہ امریکی نجی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہوگی۔
سنہ 2008میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار، سینیٹر میک کین، جنھیں صدر براک اوباما کے ہاتھوں مات ہوئی، کا کہنا ہے کہ اُن کے نزیک ملکی سلامتی سے بڑھ کر اُن کا فنڈ اکٹھا کرنا اور اپنے ذاتی سیاسی عزائم کو فروغ دینا عزیز تر ہے۔