کراچی میں پانی کے بحران کی شدت روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ رواں ماہ کی 13تاریخ کو نارتھ کراچی کی رہائشی فاطمہ بی بی کے ساتھ جو دلدوز واقعہ پیش آیا اس سے معاملے کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
غسل میت کے لئے بھی پانی نہیں
فاطمہ کے بھائی خلیل احمد کے انتقال کے وقت گھر میں اتنا پانی بھی نہیں تھا کہ میت کو غسل دے کر اسے لحد میں اتارا جاسکتا۔ پاس پڑوس والے بھی پانی کے لئے پریشان تھے، جبکہ رشتے دار بھی پانی کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
مجبوراً فاطمہ کو نارتھ کراچی میں واقع ایک واٹر ہائیڈرینٹ پر پانی کے حصول کے لئے لمبی لائن میں گھنٹوں کھڑے رہنا پڑا۔
جناح اسپتال میں 45 آپریشن ملتوی، ٹرینیں بھی لیٹ
بتایا جاتا ہے کہ اس واقعے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ 20مئی بروز بدھ کو شہر کے سب سے بڑے جناح اسپتال میں پانی کی قلت کے سبب 45آپریشن ملتوی کردیئے گئے، جبکہ بدھ کو ہی کراچی کینٹ سے چلنے والی دو ٹرینیں محض پانی کی ’نایابی‘ پر ہونے والے احتجاج کے سبب لیٹ ہوگئیں۔
سیاسی جماعتیں ہم خیال ہوگئیں
پانی کا سنگین بحران دو مخالف سیاسی جماعتوں کو ہم خیال بنا گیا ہے۔ بدھ کے روز متحدہ قومی موومنٹ نے پانی کے بحران پر 16روزہ احتجاجی مہم کا اعلان کیا تو جمعرات کو جماعت اسلامی نے کورنگی میں مظاہرہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے مظاہرین سے خطاب کے دوران پانی کی عدم دستیابی پر سندھ کے وزیربلدیات و اطلاعات شرجیل میمن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ادھر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن سید حیدر عباس رضوی نے کہا ہے کہ ’ایم کیو ایم سندھ خاص کر کراچی میں پانی کے شدید مصنوعی بحران کی جانب حکومتی توجہ مبذول کروانے کیلئے جمعہ سے چار شہروں میں احتجاجی مہم شروع کرنے والی ہے‘۔
سولہ روزہ احتجاجی مہم
ایم کیو ایم کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق، جمعہ کو ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی، ہفتہ 23 مئی کو پریس کلب، اتوار24 مئی کو کورنگی، پیر25 مئی کو مہاجر کیمپ، 28 مئی کو گلشن اقبال، 29 مئی کو پاک کالونی، 30 مئی کالا بورڈ ملیر جبکہ یکم جون کوسکھر، 2 جون کو نوابشاہ،4 جون کو میرپور خاص، 5 جون کو حیدرآباد اور 6 جون کو ایک مرتبہ پھر تبت سینٹر کراچی پر احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
زیرزمین پانی بھی نایاب
کراچی میں زیر زمین پانی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نایاب ہوتا جارہا ہے۔ گول مارکیٹ ناظم آباد کے دیرینہ رہائشی ڈاکٹر خرم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے پانی کے بحران سے بچنے کے لئے گھر میں بورنگ کروائی تھی۔ بقول اں کے، ’آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ کراچی کی سرزمین جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ ہی فٹ کی گہرائی پر پانی دستیاب ہوتا ہے، وہیں انہیں 220فٹ گہرا کنواں کھدوانا پڑا۔‘
ڈاکٹر خرم نے مزید بتایا کہ انہیں ہر بار پانچ منٹ تک کنویں سے پانی نکالنے کے لئے 20 منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ موٹر پانچ منٹ میں سارا پانی ’سَک‘ کرلیتی ہے اور کنواں خشک ہو جاتا ہے۔ دوبارہ کنویں میں پانی کم ازکم 20منٹ بعد جمع ہوتا ہے جو اگلے پانچ منٹ بعد پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح انہیں پانی نکالنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔
ڈاکٹر خرم جیسی ہی صورتحال سے سخی حسن نارتھ کراچی میں واقع سرینہ ٹاور کے رہائشی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں 170فٹ گہرا کنویں کھدوانا پڑا۔
مذکورہ دونوں صورتحال کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں واقعات اس جانب واضح اشارہ ہیں کہ کراچی میں زیرزمین پانی بھی رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے۔ یہ صورتحال خاصی پریشان کُن ہے ۔۔۔یعنی، بالفاظ دیگر ۔۔’سنگین خطرے کی گھنٹی‘۔