امریکی صحافت کی ایک معتبر شخصیت بین بریڈلی 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
وہ واشنگٹن پوسٹ کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر رہ چکے تھے اور صدر رچرڈ نکسن کی کی اقتدار سے علیحدگی کا سبب بننے والے "واٹر گیٹ" اسکینڈل کی کوریج بھی ان کی زیر نگرانی ہوئی۔
بتایا جاتا ہے کہ بریڈلی کا انتقال واشنگٹن میں ان کے گھر پر ہی ہوا۔
1970 کے عشرے کے اوائل میں وہ اس وقت شہرت کی بلندیوں پر پہنچے جب واشنگٹن پوسٹ اور دی نیویارک ٹائمز قانونی جارہ جوئی کے بعد سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے مطابق یہ اخبارات پینٹاگون کی دستاویزات چھاپنا جاری رکھ سکتے ہیں۔
یہ خفیہ سرکاری مواد امریکہ کی ویتنام میں سرگرمیوں میں شامل ہونے سے متعلق تھا۔
پھر انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں واٹرگیٹ ہوٹل میں ہونے والی نقب زنی کی اپنے اخبار کی تحقیقاتی رپورٹنگ کی بھی نگرانی کی۔ نوجوان نامہ نگاروں باب ووڈوارڈ اور کارل برنسٹئین کے ساتھ مل کر کی گئی تحقیقات کے باعث وہ حقائق منظر عام پر آئے جو صدر نکسن کی رخصت کا باعث بنے اور واشنٹگٹن پوسٹ دنیا کا ایک معتبر ترین اخبار بن کر ابھرا۔
دی پوسٹ کے سابق ناشر ڈونلڈ گراہم نے بریڈلی کو "اپنے وقت کے امریکی اخبار کے ایک بہترین مدیر" کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا۔
ڈونلڈ گراہم کی والدہ کیتھرین گراہم بریڈلی کے دور میں دی واشنگٹن پوسٹ کی ناشر تھیں۔
واٹر گیٹ سے متعلق بریڈلی کی شہرت پر ایک فلم "آل دی پریذیڈنٹس مین" بنائی گئی جس میں یہ کردار جیسن روبارڈز نے ادا کیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بریڈلی نے 1995ء میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب "اے گڈ لائف" تحریر کی۔ گزشتہ سال ہی صدر براک اوباما نے انھیں "میڈل آف فریڈم" سے نوازا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صدر اوباما نے بریڈلی کو ایک سچے صحافی کے طور پر یاد کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اُنھوں نے جو معیار متعین کیا، اس کی بنیاد ایمانداری، غیر جانبدارانہ اور متحاط رپورٹنگ تھا۔ جو کئی دیگر افراد افراد کے لیے شعبہ صحافت کا حصہ بننے کا سبب بنا۔