افغانستان و پاکستان میں 2001ء سے جنگ میں ڈیڑھ لاکھ ہلاکتیں ہوئیں: رپورٹ

اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق شہری ہلاکتوں میں زیادہ اضافہ 2007ء کے بعد دیکھا گیا اور 2009 سے 2014ء کے درمیان 17700 عام شہری ہلاک ہوئے۔

ایک نئی مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2001ء میں امریکہ کی زیر قیادت اتحادی ممالک کی افغانستان میں طالبان حکومت ہٹائے جانے کے بعد شروع ہونے والی عسکریت پسندی کے باعث افغانستان اور پاکستان میں گزشتہ سال تک ایک لاکھ 49 ہزار افراد ہلاک اور ایک لاکھ 62 ہزار زخمی ہوئے۔

براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ کا عنوان ہے "کوسٹس آف وار" جس میں 2001ء سے 2014ء تک افغانستان اور پاکستان میں جنگ سے ہونے والے جانی نقصان اور نقل مکانی کا جائزہ لیا گیا۔

اس کے مطابق افغانستان میں اس عرصے میں ہلاکتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے۔

رپورٹ کی مصنفہ نیتا کرافورڈ کہتی ہیں کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں حالیہ برسوں کے دوران اضافہ دیکھا گیا ہے اور افغانستان میں جنگ "بدتر ہو رہی ہے۔"

اس رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار اقوام متحدہ کے افغانستان میں معاون مشن اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے۔

اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے چار ماہ میں افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں ماضی کی نسبت 16 فیصد اضافہ ہوا جس میں 974 افراد ہلاک ہوئے۔

اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق شہری ہلاکتوں میں زیادہ اضافہ 2007ء کے بعد دیکھا گیا اور 2009 سے 2014ء کے درمیان 17700 عام شہری ہلاک ہوئے۔

نیتا کرافورڈ کہتی ہیں کہ یہ ہلاکتیں زیادہ تر عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہوئیں۔

گزشتہ سال بین الاقوامی افواج کے بیشتر دستے افغانستان سے اپنے اپنے وطن واپس جا چکی ہیں اور ایک معاہدے کے تحت صرف 12000 بین الاقوامی فوجی جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے، یہاں رہ کر مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں طالبان نے ایک بار پھر اپنے ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ کیا ہے جب کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جنوبی علاقے میں ان کی جھڑپیں بھی جاری ہیں۔

پاکستان کو بھی ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا رہا اور اس کے حکام کے مطابق انسداد دہشت گردی کی جنگ میں اس کے لگ بھگ 50 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔