امریکہ کے بڑے ری ٹیل سٹور چین وال مارٹ نے ذاتی اسلحے کی فروخت سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شکار سے متعلق رائفل اور گولیوں کے علاوہ ہر قسم کے اسلحے کی فروخت مکمل طور پر بند کر رہا ہے جس میں ہینڈ گنز خاص طور پر شامل ہیں۔
سٹور نے خریداروں سے بھی کہا ہے کہ وہ اس چین کے سٹورز میں اسلحہ لے کر داخل نہ ہوں۔
وال مارٹ نے یہ اقدام ریاست ٹیکساس کے شہر ال پاسو میں واقع اس کے ایک سٹور میں گذشتہ ماہ ہونے والے فائرنگ کے واقعے کے بعد اٹھایا ہے جس میں ایک شخص نے فائرنگ کر کے سٹور میں موجود 22 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
وال مارٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈگ میک میلن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ صورت حال ناقابل برداشت ہے اور جب بھی فائرنگ کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وقتی طور پر شور اٹھتا ہے اور پھر چند دن بعد حالات پھر معمول پر آ جاتے ہیں۔
امریکہ میں گن کنٹرول کے حامیوں نے وال مارٹ کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکی کانگریس اور دوسرے کاروباری اداروں کو بھی ایک پیغام ملے گا کہ وہ بھی گن کنٹرول کے حوالے سے اقدامات کریں۔
تاہم امریکہ میں ذاتی اسلحہ رکھنے کی شدت سے حمایت کرنے والی تنظیم نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن نے ایک ٹویٹ میں وال مارٹ کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وال مارٹ کا یہ اقدام ’شرمناک‘ ہے کیونکہ امریکی آئین کی دوسری ترمیم ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے بعد خریدار اب دوسرے سٹوروں کا رخ کریں گے۔
تاہم امریکہ کے شہر سان فرانسسکو نے منگل کے روز اسلحہ رکھنے کی حامی تنظیم ’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کو ’اندرون ملک دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا ہے۔ شہر کے بورڈ آف سوپروائزرز نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تنظیم انتہا پسند مؤقف رکھتی ہے اور یہ مؤقف ملک کے اکثریتی لوگوں کی رائے کے خلاف اور مفاد عامہ کے لئے نقصان دہ ہے۔
نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن نے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ٹویٹ کی ہے کہ یہ تنظیم لاکھوں کروڑوں امریکیوں کی نمائندگی کرتی ہے جو آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔
امریکہ میں کچھ عرصے سے مختلف ریاستوں میں عوامی مقامات پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جن میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں۔ ان واقعات کے بعد امریکہ میں گن کنٹرول ایک بار پھر شدت سے موضوع بحث بن گیا ہے اور امریکی کانگریس پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔
وال مارٹ سے پہلے بھی متعدد کاروباری ادارے ایسا ہی فیصلہ کر چکے ہیں۔ گذشتہ مارچ میں ڈکس سپورٹنگ گُڈز نامی کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے 700 سٹوروں میں سے 125 سٹوروں پر اسلحے کی فروخت مکمل طور پر بند کر رہا ہے۔ حال ہی میں سٹاربکس، ٹارگٹ، وینڈیز اور کروگر نامی سٹورز نے بھی گاہکوں کے اسلحہ ساتھ لانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اسلحہ رکھنے پر پابندی کی شدت سے وکالت کرنے والے گروپ ’گنز ڈاؤن امریکہ‘ کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایگور وولسکی کا کہنا ہے کہ وال مارٹ کی طرف سے امریکہ کے بیشتر شہریوں کی رائے کا احترم کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے جو اس بات پر پریشان ہیں کہ امریکہ میں ہر جگہ بہت سا ذاتی اسلحہ موجود ہے اور اسے قانونی طور پر خریدنا بھی بہت سہل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس کا اجلاس جب شروع ہو گا تو وال مارٹ جیسے بڑے کاروباری اداروں کو کانگریس پر دباؤ ڈالنا چاہئیے کہ وہ ذاتی اسلحہ رکھنے کے حوالے سے قوانین کو زیادہ سخت بنائے۔
تاہم عوامی دباؤ کے باوجود وائٹ ہاؤس اور کانگریس کی طرف سے گن کنٹرول سے متعلق اقدامات کے سلسلے میں سست روی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اوہائیو اور ٹیکساس میں یکے بعد دیگرے فائرنگ کے واقعات کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ گن کنٹرول کے بارے میں قانون سازی پر زور دیں گے۔ تاہم بعد میں انہوں نے گن کنٹرول کی بجائے کہا کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی دماغی حالت پر توجہ دی جانی چاہئیے۔