فٹ بال ورلڈ کپ میں اس سے پہلے شہرت پاتے تھے کھلاڑی اور ذکر ہوتا تھا ٹیموں کا ، مگر 2010 ورلڈ کپ کا میلہ لوٹ رہا ہے وو وو زیلا۔
وو وو زیلا پلاسٹک کا ایک باجا ہے۔جس کی لمبائی تقریباً دو فٹ ہے۔ اس کے رنگ اور ڈیزائن بے شمار ہیں۔ مگر آواز سب کی ایک ہے، تیز، اونچی اور چبھتی ہوئی ۔ جب وہ ایک کان میں داخل ہوتی ہے تو گویا ایسے لگتا ہے کہ وہ سر میں سے گونجتی ہوئی دوسر کان سے باہر نکل رہی ہے۔ یہ باجا کتنی دیر تک سنا جاسکتا ہے؟ اس کا انحصار آپ کی قوت برداشت پر ہے ۔ لیکن اگرآپ جنوبی افریقہ میں ہونے والے ورلڈ کپ کا کوئی مقابلہ دیکھ رہے ہیں،تو آپ کو اسے میچ ختم ہونے تک برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ جیولانی ورلڈ کپ کا آفیشل فٹ بال ہے اور وو ووزیلاہے اس ٹورنامنٹ کا غیر سرکاری باجا۔
ہم نے انٹرنیٹ پر وو وو زیلا کی بہت سی تصویریں دیکھی ہیں۔ اپنی شکل و شہبات میں وہ کچھ کچھ پرانے زمانے کی شہنائی سے ملتا جلتا ہے۔شہنائی ایک ایسا ہمہ صفت ساز ہے جسے خوشی اور غم ، دونوں موقعوں پر بجایا جاتا ہے ۔ مگروو ووزیلا جوش و جذبات کے اظہار کا باجا ہے۔اسے سننے سے خون جوش مارتا ہے ، لیکن غصے میں۔
اگر آپ ایک وو ووزیلا سنیں تو ایسا لگے گا کہ آپ پرانے زمانے کی کسی موٹرگاڑی کا ہاتھ سے بجانے والا بھونپو سن رہے ہیں۔اسی سے ملتے جلتے بھونپو تین چار عشرے قبل سائیکل پر بھی لگائے جاتے تھے۔جنوبی افریقہ کا ایک شخص صدام ماکے جووو ووزیلا ایجاد کرنے کا دعوے دار ہے، کہتا ہے کہ اس نے1965ء میں سائیکل کے ہارن میں تبدیلی کرکے یہ ساز بنایا تھا۔یہ ساز 1970 کے عشرے سے جنوبی افریقہ کے کھیلوں کے مقامی اور قومی مقابلوں میں بجایا جارہاہے۔ 90 کی دہائی میں ووزیلا کی رونمائی فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں ہوئی مگر 1998ء میں فرانس کے ورلڈ کپ میں اس پر پابندی لگ گئی۔۔آواز کی وجہ سے نہیں بلکہ ساخت کی وجہ سے۔ کیونکہ وہ المونیم کا تھا۔پابندی کے بعد وو وو زیلا نے اپنا پیرہن بدل کر رنگ برنگے پلاسٹک کا چغہ پہن لیا۔اس کا نیا رنگ و روپ اتنا مقبول ہوا کہ مختلف رپورٹوں کے مطابق فٹ بال کے اس سیزن میں دس لاکھ سے زیادہ وو ووزیلا فروخت ہوچکے ہیں اوراس وقت یہ ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ کی صنعت ہے۔
ہم ذکر کررہے تھے ایک وو ووزیلا کا۔۔لیکن اگر کئی ہزار وو ووزیلا ایک ساتھ بج رہے ہوں ، جیسا کہ فٹ بال کے ورلڈ کپ میں ہورہا ہے تو اس کی آواز کیسی ہوگی؟ اگر آپ ریڈیو پر کسی میچ کی کمنٹری سن چکے ہیں، یا آنکھیں بند کر ورلڈ کپ کا کوئی مقابلہ ٹیلی ویژن پر دیکھ چکے ہیں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ فٹ بال کے گراؤنڈ میں نہیں بلکہ گڑ شکر کی منڈی میں گھوم رہے ہیں جہاں کروڑوں مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔یہ ہماری رائے نہیں ہے بلکہ اکثر کمنٹیٹر، اور میڈیا رپورٹس اس آواز کو صرف بھنبھناہٹ ہی نہیں بلکہ بپھری ہوئی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کا نام دے رہے ہیں۔
ورلڈ کپ کی کوریج کرنے والے میڈیا چینل، کھلاڑی اور ٹیلی ویژن پر مقابلے دیکھنے والے فٹ بال کے کروڑوں شائقین وو وزیلا پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکے ہیں ، لیکن ورلڈ کپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ باجا افریقی ثفافت کا حصہ ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ووووزیلا کا شور سماعت اور ہمارا خیال ہے کہ مزاج کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ127 ڈی بی تک کاشور پیدا کرتا ہے ۔ اس کے بعد سب سے زیادہ آواز ڈرم کی ہے جو122 ڈی بی ہے۔
لندن سکول آف ہائیجن کی ڈاکٹر روتھ میک نرنے کا کہنا ہے کہ اگر فلو یا کسی انفکشن میں مبتلا شخص ووووزیلا بجارہا ہوتو وہ آس پاس کے دوسرے لوگوں کو بھی بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مرض کا تحفہ دے سکتا ہے۔
وو ووزیلا کے ساتھ ایک اور صنعت بھی ترقی کررہی ہے اور وہ ہے کانوں کو ڈھانپے والے غلاف بنانے کی صنعت۔میڈیا رپورٹوں میں بتایا ہے کہ یہ غلاف بڑی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں۔بلکہ ایسی تصویریں بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں وو ووزیلا بجانے والوں نے بھی اپنے کانو ں پرغلاف چڑھا رکھے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ ووووزیلا مزاج میں ایک مستقل مزاجی پیدا کرتا ہے۔اس کا اندازہ ورلڈکپ کے میچ دیکھ کر لگایا جاسکتاہے۔گول ہونہ ہو، یا کارنر لگے نہ لگے، کچھ ہو رہا ہویا کھیل رکا ہوا ہو۔کوئی جیتے یا کوئی ہارے، ٹیم اپنی ہویا پرائی ہو۔۔اسٹیڈیم کو کوئی جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آتا ، تالیوں کی گونج یا نعروں کا شور سنائی نہیں دیتا،سوائے ووووزیلا کی ایک ہی سطح کی مسلسل بھنبھناہٹ کے کوئی دوسری آواز کانوں میں نہیں پڑتی۔
اور آخر میں ایک خوش خبری ۔معروف کورین موٹر ساز کمپنی ہونڈائی نےعالمی کپ کے لیے 114 فٹ لمبا خصوصی ووووزیلا تیار کیا ہے تاکہ ہر میچ کا آغاز اسے بجا کر کیا جائے۔ خوش خبری یہ ہے کہ اس دیومالائی وو ووزیلا کو بجانے کی اجازت نہیں ملی، ورنہ ہم اور آپ کس حال میں ہوتے۔