وائس آف امریکہ کی اردو اور پشتو کی ویب سائٹس کی پاکستان میں بندش پر اپنے ردعمل میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی جانب سے وائس آف امریکہ کی اردو اور پشتو سروسز کی ویب سائٹس بلاک کرنے کی کوشش پر شدید تحفظات ہیں۔ ہم پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اظہار کی آزادی سے متعلق اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور بند کی جانے والی ویب سائٹس کھول دے۔
وائس آف امریکہ کی ڈائریکٹر ایمینڈا بینیٹ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اردو اور پشتو زبانوں میں خبریں اور معلومات پاکستان کے عوام تک پہنچنے میں بندش کی حالیہ کوششوں پر ہمیں پریشانی ہوئی ہے۔ وائس آف امریکہ کی اردو ویب سائٹ جزوی یا کلی طور پر دسمبر کے شروع سے بلاک کی جا رہی ہے جب کہ وائس آف امریکہ کی ڈیوا ( پشتو زبان کی سروس) کی ویب سائٹ اکتوبر کے آخر سے بند ہے۔
ہمارے سامعین وائس آف امریکہ کی جانب سے تازہ واقعات پر حقیقی، اور غیر جانب دارانہ کوریج پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے ہماری ویب سائٹس بند کر نے کی کوئی بھی کوشش اردو اور پشتو بولنے والوں کو خطے سے متعلق قابل بھروسا خبروں کے ایک اہم ذریعے تک رسائی سے محروم کرنا ہے۔
اظہار کی آزادی کے مفاد کے پیش نظر وائس آف امریکہ، ہماری ویب سائٹس بلاک کرنے کے ذمہ داروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو فوری طور پر ہٹا دیں۔
ایمنڈا کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ویب سائٹس بلاک کرنے کی حالیہ کوششوں کے باوجود ہم اردو کے پروگراموں کے لیے وی او اے سے منسلک ایک ٹیلی وژن اسٹیشن اور اردو اور ڈیوا سروس کے لیے ریڈیو، سیٹلائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر بدستور موجود ہیں جن میں ٹوئیٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور یو ٹیوب شامل ہیں۔
اس سے قبل وائس آف امریکہ کے اسلام آباد بیورو نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک انٹیلی جینس ذریعے کے حوالے سے ، جس نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی تھی، بتایا تھا کہ وائس آف امریکہ کی ویب سائٹس کو بند کرنے کی وجہ پشتون تحفظ موومنٹ کو کوریج دینا تھا۔ اس گروپ کے پاکستان کی فوج کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویب سائٹس جھوٹی اور جانب دارانہ رپورٹنگ پر بند کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ویب سائٹس پر غیر جانب داری کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خاص نکتہ نظر کی تشہیر کی جا رہی تھی جب کہ ہمارے ملک میں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت سی چیزیں مثبت ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں اور اجتماعات کی کوریج پر پاکستان میں غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پی ٹی ایم سے متعلق خبروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں ان صحافیوں کے خلاف مقدمے درج کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے کہ جو پی ٹی ایم کی ریلیوں کی کوریج کرتے ہیں جس کی تازہ مثال ریڈیو فری یورپ کے مشال ریڈیو کے صحافی سیلاب محسود اور ایک مقامی ٹیلی وژن کے رپورٹر ظفر وزیر ہیں جنہیں پولیس نے 20 دوسرے افراد کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کی ہفتے کے روز ہونے والی احتجاجی ریلی میں ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگانے اور تشدد پر اکسانے والوں میں نامزد کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی اردو اور پشتو ویب سائٹس کی بندش ٹوئیٹر پر صارفین کی گفتگو کا موضوع بنا ہو اہے۔ محسن داور نے ویب سائٹس کی بندش کی مذمت کی ہے۔
Blocking the websites of @URDUVOA and @voadeewa for the only reason of reporting the issues related to PTM is strongly condemnable. Freedom of expression seems to be shrinking very nakedly but the attempt of containing truth will fail once again.
— Mohsin Dawar (@mjdawar) December 12, 2018
احسن خان صادق زئی اپنی ٹویٹ میں وائس آف امریکہ کی اردو اور پشتو ویب سائٹس کی بندش کو اپنا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے۔
Upper Punjab has blocked Voice of America,rest of Pakistan has nothing to do with blocking VOA. https://t.co/1THW4w75m6
— Ahsen Khan Sadiqzai (@sadiqzai) December 12, 2018
فرحت اللہ بابر اپنے ٹویٹ میں بلاک کرنے کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینسر شپ کبھی بھی فتح یاب نہیں ہوا۔
These words of Manzoor Pashteen censored, invited angry response, VOA blocked but so what? No fire furious enough to burn words, no prison large enough to jail ideas. Guns can never shoot message. Censor has never won, tormentors never succeeded, howl and growl never healed. https://t.co/80Rr13Z9AQ
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) December 7, 2018