ورجینیا: آئندہ صدر کون ہوگا، فیصلہ لاوڈن کاؤنٹی کرے گی؟

فائل

آبادی کے تبدیل ہوتے ہوئے اعداد و شمار کے نتیجے میں سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہیں، جس کی بنا پر ورجینیا علامتی کانٹے کے مقابلے والی ریاست بن چکی ہے

مانا کہ 2016ء کا امریکی صدارتی انتخاب قریب ہے۔ ورجینیا اُن چند ریاستوں میں سے ایک ہے جو یہ فیصلہ کرے گی آیا اگلا صدر ڈیموکریٹ ہیلری کلنٹن یا ری پبلیکن ڈونالڈ ٹرمپ ہوں گے۔ اور اگر آٹھ نومبر کی ووٹنگ میں ورجینیا کس کو ووٹ دے گا، آپ کو اپنی نظریں شمالی ورجینیا کی لوڈن کاؤنٹی پر جمائے رکھنا ہوں گی۔

سالہا سال سے لاوڈن کاؤنٹی ری پبلیکن پارٹی کا قابل بھروسہ حلقہ رہا چکا ہے، جس کے باعث 1968ء سے 2004ء کے دوران یہ کاؤنٹی ورجینیا میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کو جتواتی رہی ہے، ڈیموکریٹ براک اوباما نے ورجینیا کو پھر سے اپنی پارٹی کا حامی بنایا، اور اُنھوں نے پھر وہاں سے جیتا۔ اُنھوں نے لاوڈن​کاؤنٹی سے معمولی نہیں بڑی واضح اکثریت سے فتح حاصل کی۔

’ہائی ٹیک‘ کارکنوں کی بھرمار

حالیہ برسوں کے دوران، فروغ پاتی ہوئی ہائی ٹیک صنعت کے میدان میں کام کرنے والے لاوڈن​ کاؤنٹی میں آبسے ہیں، جس کا باعث شمالی ورجینیا کی اِس کاؤنٹی کی واشنگٹن سے قربت ہے۔ یہاں کی ہائی ٹیک صنعت نے بیرونِ ملک سے ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین درآمد کیے ہیں، جن میں زیادہ کا تعلق خاص طور پر بھارت سے ہے۔

آبادی کے تبدیل ہوتے ہوئے اعداد و شمار کے نتیجے میں سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہیں، جس کی بنا پر ورجینیا علامتی کانٹے کے مقابلے والی ریاست بن چکی ہے۔

لاوڈن کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم کارکن، کریگ گرین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ایک زمانہ تھا کہ یہاں ہر طرف لہراتے کھیت تھے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اب یہاں قابلِ ذکر نئے قصبہ جات بن چکے ہیں، جن میں نیو لاوڈن بھی شامل ہے، جہاں چوٹی کی کاروباری دکانیں، ریستوران اور رہائشی فلیٹ ہیں، جب کہ ماضی قریب میں یہ ایک دیہاتی علاقہ ہوا کرتا تھا۔

گرین کے بقول ’’اور اب، جیسا کہ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں، یہاں کاروباری مراکز کے علاوہ مکانات بن گئے ہیں۔ پھر یہاں ہمارے ارد گرد ’ڈیٹا سینٹرز‘ قائم کیے گئے ہیں‘‘۔