ویتنام: حکومت پر آن لائن تنقید قابلِ گرفت جرم قرار

ایک سرکاری فرمان میں، جس پر گذشتہ ہفتے دستخط کرکے قانون کا درجہ دیا گیا، ’ریاست کے خلاف پروپیگنڈا‘ تحریر کرنے والوں کے خلاف 4700 امریکی ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہوسکتا ہے
ایک نئےقانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے، ویتنام نے آن لائن اختلاف رائے کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائی کو تیز تر کردیا ہے، جس میں فیس بُک جیسے سماجی ابلاغ کے ذریعے حکومت کے خلاف نکتہ چینی کرنے والے پر بھاری جرمانہ عائد کرنا شامل ہے۔

ایک سرکاری فرمان میں، جس پر گذشتہ ہفتے دستخط کرکے قانون کا درجہ دیا گیا، ’ریاست کے خلاف پروپیگنڈا‘ تحریر کرنے والوں کے خلاف 4700ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔

تاہم، ابہام کی شکار اس قانون سازی میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی آیا کس قسم کے معاملات میں سزا دی جا سکے گی۔


آن لائن کے ایک سرگرم کارکن، نگوین لان تھانگ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ویتنامی سروس کو بتایا کہ ایسے میں جب اس نئے سرکاری اعلان کی وجہ سے ویتنام کے انٹرنیٹ صارفین میں تشویش کا عنصر عیاں ہے، لیکن آن لائن پر کام کرنے والی منحرفین برادری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

تھانگ کے بقول، ’حکومت کے خلاف بولنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کی پاداش میں اُنھیں گرفتار یا قید کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاری جرمانے اُنھیں اپنی آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکتے‘۔

یہ سرکاری فرمان اُس سلسلے کے اقدامات کی ایک تازہ مثال ہے جس کا مقصد آن لائن خطاب پر کنٹرول کا سخت پہرہ لگانا ہے۔

اس سے قبل، ستمبر میں جاری کیے گئے ایک سرکاری فرمان میں انٹرنیٹ کے ذریعے خبروں کی ترسیل کو قابلِ گرفت جرم قرار دیا گیا ہے۔


گذشتہ ماہ، ایک پرانے قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے، آن لائن کام کرنے والے ایک سرگرم کارکن کو 15 ماہ کی سزا دی گئی تھی، جس کا جرم یہ تھا کہ اُس نے اپنے بھائی کو دی جانے والی قید کی سزا کے خلاف فیس بُک پر نکتہ چینی کی تھی۔

امریکہ میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے خبر دی ہے کہ 2013ء کے دوران اب تک 60 سے زائد منحرفین اور سرگرم سیاسی کارکنوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں، ایک سال قبل تقریباً 40 افراد کو سزا دی گئی تھی۔