ٹرمپ حکومت کی جانب سے حزبِ اختلاف کے رہنما کو وینزویلا کا عبوری صدر تسلیم کرنے کے بعد صدر نکولس مادورو نے امریکہ سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا ہے۔
نکولس مادورو کی حکومت نے امریکہ میں موجود وینزویلا کے سفارتی عملے کو 72 گھنٹوں میں امریکہ سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔
لیکن امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ مادورو کے پاس ایسا کوئی حکم دینے کا اختیار نہیں ہے کیوں کہ وہ اب وینزویلا کے صدر نہیں رہے۔
وینزویلا میں حزبِ اختلاف کے رہنما اور حزبِ اخلاف کی اکثریت والی پارلیمان 'کانگریس' کے صدر ہوان گوائیڈو نے بدھ کو ملک بھر میں حزبِ اختلاف کی اپیل پر منائے جانے والے یومِ احتجاج کے دوران خود کو ملک کا عبوری صدر قرار دیا تھا۔
گائیڈو نے دارالحکومت کاراکاس میں ہونے والے ایک بڑے جلسے میں صدر کے عہدے کا علامتی حلف بھی اٹھایا تھا اور صدر مادورو سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایوانِ صدر خالی کردیں۔
حزبِ اختلاف کے رہنما کی جانب سے وینزویلا میں متبادل حکومت کے قیام کے اعلان کا امریکہ نے فوراً ہی خیر مقدم کیا تھا اور انہیں ملک کا صدر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ہوان گائیڈو کو باضابطہ طور پر وینزویلا کی نیشنل اسمبلی کا صدر تسلیم کر رہے ہیں۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر وینزویلا میں پرامن انتقالِ اقتدار نہ ہوا تو امریکہ تمام آپشنز پر غور کرے گا۔
امریکی حکومت نے دنیا کے دیگر ملکوں پر بھی ہوان گائیڈو کی حکومت تسلیم کرنے پر زور دیا تھا۔ کینیڈا اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کی حال ہی میں قائم ہونے والی علاقائی تنظیم 'لیما گروپ' کے 14 میں سے 11 ارکان نے بھی گائیڈو کو وینزویلا کا صدر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم کیوبا اور بولیویا کی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر نکولس مادورو کی حمایت جاری رکھیں۔ وینزویلا کے وزیرِ دفاع نے بھی کہا ہے کہ صدر مادورو کو ملک کی مسلح افواج کی حمایت حاصل ہے۔
صدر مادورو گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر ملک کے صدر منتخب ہوگئے تھے اور انہوں نے رواں ماہ ہی اپنے عہدے کی نئی مدت کا حلف اٹھایا ہے۔
لیکن ان کے اس انتخاب کو عالمی برادری اور وینزویلا کی حزبِ اختلاف نے تسلیم نہیں کیا تھا کیوں کہ انتخاب سے قبل حزبِ اختلاف کے بیشتر رہنماؤں اور امیدواروں کو یا تو قید کردیا گیا تھا یا انہیں حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے بیرونِ ملک پناہ لینا پڑی تھی۔
وینزویلا کی معیشت کا کلی انحصار تیل کی برآمد پر ہے۔ لیکن عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے اور کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے جس کا ذمہ دار حزبِ اختلاف صدر مادورو کو قرار دیتی ہے۔