سردی بڑھنے کے ساتھ پرانے گرم ملبوسات کی فروخت میں اضافہ

اکثر گرم ملبوسات کی مارکیٹ میں رش سردیوں میں عروج پر ہوتا ہے جب کہ گرمی میں یہاں گرم ملبوسات کے بجائے دیگر سامان فروخت ہوتا ہے۔

کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ کی مارکیٹ بھی گرم ملبوسات کے لیے مشہور ہے۔

یہ بازار سریاب لنک روڈ پر عارضی طور پر مختلف چھوٹی چھوٹی اور کچی دکانوں پر مشتمل ہے۔ 

اس مارکیٹ میں پرانے کپڑے ، پینٹس، شرٹس، جیکٹس، رضائیاں، بچوں کی جرابیں، ٹوپیاں، دستانے، جوتے اور دیگر گرم ملبوسات نسبتاََ کم قیمت پر مل جاتے ہیں۔

کپڑوں کے بعد سب سے زیادہ گاہک جوتوں کی خریداری کے لیے اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔

کوئٹہ کی مارکیٹ میں دکانوں کے علاوہ سوزوکیوں پر بھی پرانے گرم ملبوسات اور دیگر سامان فروخت کیا جاتا ہے۔

پرانے کپڑوں کی مارکیٹ میں سردی سے بچنے کے لیے ہر سائز اور ہر قسم کے دستانے بھی فروخت ہوتے ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ سردی میں ٹھنڈی ہواؤں سے بچنا ہو تو کان ڈھک کر رکھیے۔ باقی جسم فطری طور پر گرم رہے گا۔ یہ کہاوت سچ ہے یا نہیں۔ لیکن اکثر بازاروں میں کانوں کو چھپانے کے لیے 'کنٹوپ' یعنی 'کانوں کی ٹوپی' فروخت کی جاتی ہے۔

کم قیمتیں ہونے کے سبب یہ مارکیٹ سفید پوش اور کم آمدنی والے افراد کے لیے اولین ترجیح ہوتی ہے۔

دکانداروں کے مطابق استعمال شدہ گرم ملبوسات بیرونِ ملک سے پہلے کراچی اور پھر دیگر شہروں میں لائے جاتے ہیں۔

کچھ جیکٹس میں سردی سے بچنے کے لیے روئی بھی بھری جاتی ہے۔ روئی کی یہ جیکٹس مختلف اور دلکش رنگوں میں بنائی جاتی ہیں۔

بلوچستان کے بالائی علاقوں کوئٹہ، زیارت، قلات، سہراب، کان مہترزئی، چمن و دیگر میں موسم سرما میں شدید سردی پڑتی ہے۔ اس لیے متوسط طبقے کے افراد ان مارکیٹوں سے بڑے پیمانے پر خریداری کرتے ہیں۔

سردیوں کے موسم میں ملبوسات میں سب سے زیادہ خریداری جیکٹس کی ہوتی ہے۔