کوئٹہ: گیس کی قلت کے باعث روایتی چولہوں کا استعمال

سردیوں میں کوئٹہ میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں گھروں کو گرم رکھنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔

شہر میں گیس پریشر کم ہونے سے روایتی چولہوں کی مانگ بڑھ گئی ہے جس میں لکڑی کو جلایا جاتا ہے۔ 

کوئٹہ کی معروف  ٹک ٹک گلی میں ان دنوں دھاتی چولہے بنانے کے کام میں تیزی آ گئی ہے۔ 

کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سرد ترین علاقوں میں بھی ان چولہوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

 

ان چولہوں کی مانگ بڑھنے سے نہ صرف بڑے بلکہ بچے بھی ان کی تیاری میں مصروف ہیں۔ 

چولہوں کی تیاری میں جست یا المونیم سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے جب کہ اس کے کاریگروں کا ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔ زیادہ تر کام ہاتھ سے ہوتا ہے۔

دکان داروں کا کہنا ہے کہ یہ چولہے نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں زیارت اور قلات سمیت دیگر اضلاع میں بھی بھجوائے جاتے ہیں۔ 

 

چولہوں کی مانگ بڑھنے سے ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر ایک ہزار سے 1500 روپے تک کا چولہا اب تین ہزار روپے تک بھی فروخت ہو رہا ہے۔