پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ بظاہر طاقت کے استعمال سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔
اُنھوں نے منگل کو اسلام آباد میں انسٹیٹویٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز میں ایک سیمینار سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان چاہتا کہ جب مذاکرات کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تو پاکستان طاقت کا استعمال کرے۔
’’کیوں کہ مذاکرات افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ہونے ہیں تو وہ اگر نہیں (ہو رہے) ہیں تو پھر اور کیا طریقہ ہے۔ افغانستان یہ کہہ رہا ہے کہ اگر مذاکرات شروع نہیں ہو رہے تو آپ (پاکستان) کوئی اور طریقہ (فوجی آپریشن) استعمال کر کے دیکھے ۔۔۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی کارروائی جو 14 سال سے ہو رہی ہے 2001ء کے بعد سے اب تک، اس کا نتیجہ نہیں نکلا ۔۔۔ تو مصالحت کا عمل دو چار ہفتوں میں تو نہیں ہو سکتا اس کے لیے وقت چاہیئے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ امن لانے کا کوئی اور راستہ ہمیں نہیں نظر آتا۔‘‘
واضح رہے کہ حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے افغان پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ اُن کا ملک چاہتا ہے کہ پاکستان اُن طالبان کے خلاف کارروائی کرے جو مذاکرات سے انکاری ہیں۔
لیکن سرتاج عزیز کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان فی الحال ایسی کسی کارروائی کے حق میں نہیں۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر سے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔
اگرچہ اس سے قبل سیکرٹری خارجہ اور وزارت خارجہ کے دیگر عہدیدار افغان طالبان کے وفد کے دورہ پاکستان کے بارے میں لاعملی کا اظہار کرتے رہے ہیں، تاہم سرتاج عزیز نے اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے رابطے ایک دوسرے کا موقف جاننے کے لیے ہوتے ہیں۔
’’ظاہر ہے ہمارے بھی رابطے ہیں، امریکہ کے بھی قطر ( میں طالبان کے دفتر) کے ساتھ رابطے ہیں، چین کے اپنے رابطے ہیں، (افغانستان کی) اعلیٰ امن کونسل ہے کے بھی رابطے ہیں تو چار ملکی گروپ کے چاروں ممالک اپنے اپنے رابطے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ سال کے اواخر میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین پر مشتمل چار ملکی گروپ تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا تھا۔
تاحال اس گروپ کی کوششوں کے باوجود طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ممکن نہیں ہو سکے ہیں۔