امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں اب پانچ ہفتے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے ۔ صدر اوباما آج سے ان امریکی ریاستوں میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں جہاں نوجوان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے۔ نوجوان ووٹرز ہی دو سال پہلےنوجوان ووٹرز نے ہی صدر اوباما کو کامیابی کے ساتھ وہائٹ ہاؤس تک پہنچایا تھا۔ مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کےانتخابات میں شاید ایسا نہ ہو سکے ۔وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکی حکمراں جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی ایوان نمائندگان میں اپنی فیصلہ کن اکثریت سے محروم ہو سکتی ہے ۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کی انتخابی مہم میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لئے صدر اوباما آج ریاست وسکانسن کےدارلحکومت میڈیسن میں انہی نوجوان اور قلیتی ووٹروں کو نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے جو 2008ء کے صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی کی وجہ بنے تھے ۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بعض امریکی ریاستوں میں غیر جانبدار ووٹرز جنہوں نے دو سال پہلے صدارتی انتخابات میں صدر اوباما پر اعتماد کا اظہار کیا تھا ، تیزی سے ریپبلکن پارٹی کے حامی بن رہے ہیں ۔ اورمبصرین کے مطابق بعض ریاستوں میں ایک نئی سیاسی تحریک چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رہی ہے ۔
ٹی پارٹی تحریک کی ایک کارکن جولیا مک لاؤڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت کے اختیارات اور ٹیکسوں میں کمی چاہئے ۔
مبصرین کے مطابق امریکی عوام کے غصے کو سیاستدانوں سے زیادہ امریکی معیشت ہوا دے رہی ہے ۔ خصوصا بے روزگاری کی تشویشناک صورتحال۔ اس سلسلے میں کوئینی پیاک یونیورسٹی کے زیر ا ہتمام کرائے جانے والے کے مرتبین میں پیٹر براؤن بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سے لے کر 129 تک سارے مسائل معیشت سے متعلق ہیں ۔ جس کا مطلب ہے بے روزگاری ۔ جب تک بے روزگاری کم نہیں ہوتی ، ووٹر معیشت کےبارے میں بالکل پر امید نہیں ہونگے ، یہ صدر اوباما کے لئے اچھا نہیں ہے ۔
اور ری پبلکن سیاستدان امریکی بجٹ کے خسارے اور حد سے زیادہ سرکاری اخراجات پر پائی جانےو الی اسی عوامی تشویش کا اس سال نومبر میں کانگریس کے انتخابات میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، یہ خیال ہے امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کے جان فورٹیئر کا۔ وہ کہتے ہیں کہ اہم یہ ہے کہ حزب اختلاف ، ری پبلیکنز اور ٹی پارٹی موومنٹ کے حامیوں کو امریکہ کی سمت درست معلوم نہیں ہو رہی ۔ ان کے خیال میں معیشت خراب اور حکومت کا حجم بہت زیادہ ہے ۔
اس مخالفانہ اور قدامت پسند گروہ کو حمایت حاصل ہے ریاست الاسکا کی سابق گورنر اور سابق نائب صدارتی امیدوار سار اپیلن کی۔ جن کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک کو درست راہ پر ڈالنے کے لئے 2012 ء تک انتظار نہیں کر سکتے ۔ ہمیں ابھی مضبوط راہنما منتخب کرنے ہونگے جو مشکل حالات میں پیچھے نہ ہٹیں ۔
صدر اوباما کی کم ہوتی مقبولیت بھی اب کوئی رازنہیں ، مگر ڈیمو کریٹک پارٹی کوامریکی کانگریس میں اکثریت برقرار رکھنےکی امید اب بھی انہی سے ہے جو اس ہفتے سے امریکہ بھر میں انتخابی ریلیوں سے خطاب شروع کر رہے ہیں ۔
مبصرین کی پیشگوئیاں درست ہوئیں تو ری پبلیکن پارٹی نومبر کے انتخابات میں کامیابیاں حاصل کر ے گی مگر سوال یہ ہے کہ کس قدر ؟
پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ تاریخی طور پر تو یہی ہوتا رہا ہے کہ جو پارٹی وہائٹ ہاؤس میں ہوتی ہے، وہ وسط مدتی انتخابات میں نشستیں ہارتی ہے ۔ اور اگر ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تو بہت حیرت کی بات ہوگی ۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ کتنی نشستیں ہار سکتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سال ری پبلکن پارٹی کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا ۔
جان فورٹیئر کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں نتیجہ جو بھی ہو، چاہے ری پبلیکنز کانگریس میں بڑی کامیابی حاصل کریں یا کم بڑی ،اگلے دو سال بہت مختلف ہونگے ۔یا تو کامیابیاں معمولی ہونگی یا تنازعے بڑے ۔ اب اوباما کے قانون سازی کے ایجنڈے میں دوسری چیزوں کے لئے وقت نہیں ہوگا۔
دو نومبر کو ہونے والے ان انتخابات میں امریکی سینیٹ کی ایک سو میں سے 36 نشستوں کے لئے جبکہ ایوان نمائندگان کی تمام نشستوں کے لئے امیدوار میدان میں اتریں گے۔ ری پبلیکن پارٹی کو امریکی ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے29 نشستوں کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سینیٹ میں صرف دس نشستوں کی ۔