|
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ واشنگٹن پاکستان میں آزادیٔ اظہار اور آزاد صحافت کے حق کو دیکھنا چاہتا ہے۔
منگل کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران میتھیو ملر سے جب پاکستان میں صحافیوں کی گرفتاری اور نیو یارک ٹائمز کی پاکستان میں بیورو چیف کو ملک چھوڑنے کا کہنے سے متعلق خبروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں آزادئ اظہار اور آزاد صحافت کے حق کو اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں جیسے دنیا میں کہیں اور ہو۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں دو صحافیوں اسد علی طور اور عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان دونوں کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک میں عام انتخابات کے بعد مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ان گرفتاریوں نے ملک میں آزادیٔ اظہار کے بارے میں خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا یا صحافیوں پر قدغن لگانے کی شکایات تواتر سے سامنے آتی رہی ہیں۔
SEE ALSO: صحافی اسد طور کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے : صحافتی تنظیمیں
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پیر کو صحافی اسد علی طور کو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مبینہ مہم کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کے حکم کے بعد گرفتار کر لیاتھا۔ بعد ازاں منگل کو انہیں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
اس سے قبل 22 فروری کو پنجاب پولیس نے رات گئے ایک چھاپے میں عمران ریاض خان کو کرپشن کے الزامات پر گرفتار کر لیا تھا۔ عمران ریاض نے کچھ بھی غلط کرنے کی تردید کی اور عدالت میں کہا کہ انہیں عام انتخابات میں مبینہ طور پر 'ریاست کی سر پرستی' میں دھاندلی پر رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کا الیکشن کمیشن دھاندلی سے متعلق الزامات کی تردید کرتا ہے۔
میتھیو ملر سے جب پوچھا گیا کہ اب بھی پاکستانی سیاست میں امریکہ کی مداخلت کی بات ہوتی ہے تو اس کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ وہ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ یہاں کھڑے ہو کر سچ بولتے رہیں اور وہ سچ یہ ہے کہ مداخلت کے یہ الزامات غلط اور جھوٹے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی حکومت سمیت ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوں۔
SEE ALSO: انتخابات 2024: ’امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے الیکشن پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا‘واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان کی حکومت امریکہ کی مداخلت پر گرائی گئی۔ وہ اس کی بنیاد ایک امریکی سفارت کار کی پاکستانی سفیر کے ساتھ گفتگو کو قرار دیتے ہیں جو سائفر کے ذریعے اسلام آباد بھیجی گئی تھی۔
امریکہ بارہا عمران خان کے ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
یاد رہے کہ سائفر کیس میں پاکستان کی عدالت نے عمران خان اور ان کی حکومت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنا چکی ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام تھا جب کہ دونوں سیاست دان ان الزامات کی ترید کرتے رہے ہیں۔