روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’’سنگین سفاکی‘‘، مائیک پینس کی شدید مذمت

امریکہ کےنائب صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حالیہ دِنوں، برما کی سلامتی افواج نے شدت پسندوں کی جانب سے سرکاری چوکیوں پر ہونے والے حملوں کا جواب شدید بربریت سے دیا، دیہات جلا دیے گئے، روہنگیا کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا‘‘

امریکی نائدر مائیک پینس نے برما میں پُر تشدد حملوں کے نتیجے میں روہنگیا افراد کے بنگلہ دیش نکل جانے کے معاملےکی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’’تاریخی بے دخلی‘‘ کا معاملہ ہے۔ اب تک میانمار کے روہنگیا بحران پر کسی اعلیٰ امریکی اہل کار کی جانب سے یہ سخت ترین بیان ہے۔

بدھ کے روز اقوام متحدہ میں قیام امن پر مامور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں پینس نے کہا کہ دنیا جنوب مشرقی ایشیائی ملک، برما میں ’’ایک بڑا سانحہ رونما‘‘ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔


پینس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حالیہ دِنوں، برما کی سلامتی افواج نے شدت پسندوں کی جانب سے سرکاری چوکیوں پر ہونے والے حملوں کا جواب شدید بربریت سے دیا، دیہات جلا دیے گئے، روہنگیا کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا‘‘۔

اُنھوں نےکہا کہ ’’تشدد کی کارروائی اور ہلاکتوں کی تصاویر دیکھ کر امریکی عوام، اور دنیا بھر کے مہذب لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے‘‘۔

گذشتہ ایک ماہ کے دوران 400000 سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار چھوڑ چکے ہیں، جہاں اُنھیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور امتیاز سے سابقہ پڑا۔


پینس نے اِس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ بھاگ نکلنے والوں میں سے لاکھوں لوگ پیدل تھے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

روہنگیا شدت پسندوں نے اگست کے آخر میں برما کی سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا۔ تب سے، تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ برما کی فوج نے وحشیانہ کارروائی کرتے ہوئے، سارے دیہات کو نذر آتش کیا، جس میں خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔

پینس نے توجہ دلائی کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے منگل کے روز روہنگیا مہاجرین کے معاملے پر میانمار کی سولین لیڈر، آنگ سان سوچی سے گفتگو کی ہے، اور برما کی فوج اور سلامتی افواج پر زور دیا کہ انسانی امداد کی رسائی میں سہولت فراہم کی جائے۔

پینس نے کہا کہ ’’ہم (آنگ سان) سوچی کے کلمات کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ پناہ گزینوں کو واپس آنے میں کوئی ڈر خوف لاحق نہیں ہوگا۔ امریکہ نے برما کی سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی پُرتشدد کارروائی بند کردیں اور طویل مدتی حل کے حصول کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کی حمایت کریں‘‘۔