امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ واشگٹن کو لیو شیاؤبو اور گھر پر نظر بند ان کی اہلیہ سے متعلق شدید تشویش ہے۔
امریکہ نے چین سے نوبل انعام یافتہ لیو شیاؤبو کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گزشتہ پانچ سال سے حراست میں ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ واشگٹن کو لیو شیاؤبو اور گھر پر نظر بند ان اہلیہ سے متعلق شدید تشویش ہے۔ ’’بیجنگ اس جوڑے اور ان کے گھرانے کے تمام اراکین کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تحفظ اور آزادی کو یقینی بنائے۔‘‘
انہوں نے کہ چین سے تعمیری تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی رہنما قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوری اصولوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہے گا۔
لیو شیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں جمہوریت کے لیے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان پر تخریب کاری کے الزام کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
لیو شیاؤبو نے 1989ء میں تیانامین اسکوائر بیجنگ میں ہونے والے مظاہرے میں بھی شرکت کی تھی اور وہ سیاسی آزادی و انسانی حقوق کے لیے چین کے اہم ترین سرگرم کارکنوں میں سے ایک ہیں۔
نوبل انعام کے لیے ان کے نام پر اعلان کے بعد چین نے انعام دینے والی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے اسے اس اعزاز کی ’’توہین‘‘ قرار دیا تھا۔
ماضی میں چین متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ لیو سے متعلق کسی قسم کا بین الاقوامی دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ واشگٹن کو لیو شیاؤبو اور گھر پر نظر بند ان اہلیہ سے متعلق شدید تشویش ہے۔ ’’بیجنگ اس جوڑے اور ان کے گھرانے کے تمام اراکین کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تحفظ اور آزادی کو یقینی بنائے۔‘‘
انہوں نے کہ چین سے تعمیری تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی رہنما قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوری اصولوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہے گا۔
لیو شیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں جمہوریت کے لیے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان پر تخریب کاری کے الزام کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
لیو شیاؤبو نے 1989ء میں تیانامین اسکوائر بیجنگ میں ہونے والے مظاہرے میں بھی شرکت کی تھی اور وہ سیاسی آزادی و انسانی حقوق کے لیے چین کے اہم ترین سرگرم کارکنوں میں سے ایک ہیں۔
نوبل انعام کے لیے ان کے نام پر اعلان کے بعد چین نے انعام دینے والی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے اسے اس اعزاز کی ’’توہین‘‘ قرار دیا تھا۔
ماضی میں چین متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ لیو سے متعلق کسی قسم کا بین الاقوامی دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔