امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ اور اُن کے ملک کی انٹیلی جنس قیادت نے کمزور ہوتے ہوئے شام میں دولت اسلامیہ جیسے انتہا پسند گروپ کے منظم ہونے کی صلاحیت کے بارے میں کم اندازہ لگایا تھا۔
سی بی ایس کو ایک انٹرویو میں، جو اتوار کے رات نشر ہوا، صدر براک اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ نے شدت پسندوں سے اپنے طور پر نمٹنے کی عراقی فوج کی استعداد کا بھی غلط اندازہ لگایا تھا۔
امریکی قیادت والے مغربی اور عرب ملکوں کے اتحاد نے اتوار کے روز داعش کے اہداف پر فضائی حملے جاری رکھے، جس دوران ترکی کے ساتھ ملنے والی شام کی سرحد کے قریب واقع تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
شام کے ایک سرکردہ شدت پسند گروہ، ’النصرہ محاذ‘ نے ہفتے کے دِن حملوں میں شریک ملکوں سے بدلہ لینے کا عہد کیا۔
امریکی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گذشتہ ہفتے داعش کے خلاف شروع ہونے والی فضائی کارروائی شام کی حکومت کو فائدہ نہیں دے گی، جس خانہ جنگی کو اب تین برس گزر چکے ہیں۔
تاہم، شام کے وزیر اطلاعات نے اتوار کے روز دمشق میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد جس میں غیر ملکی لڑاکوں کی مذمت کی گئی ہے، وہ، بقول اُن کے، شام کی’ سیاسی فتح‘ ہے۔
وزیر عمران الزوبی نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد ، جس میں مذہبی انتہا پسندوں کو باہر جاکر لڑنے پر پابندی لگائی گئی ہے، یہ اُن کے ملک کے لیے مثبت ثابت ہوگا۔
اُن کے بقول، ’اِس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے کے مقابلے میں آج سب کچھ بہتر ہے، زمین پر اور سیاست میں۔ یہ پہلےسے بہتر ہے، بہترین نہیں، لیکن پہلے سے بہتر ہے‘۔
سنی مسلک سے وابستہ دولت اسلامیہ عراق کے شمال مغرب اور مشرقی شام کے علاقے میں اسلامی خلافت کا اعلان کر چکا ہے، یہ وہ وسیع علاقہ ہے جہاں داعش کے شدت پسندوں نے مغربی یرغمالیوں کے سر قلم کیے اور شیعہ اور غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے یا پھر ہلاک ہونے کے احکامات جاری کیے۔