امریکہ اور روس کے صدور نے اس معاہدے پر جلد عملدرآمد کی ضرورت اور تشدد کے خاتمے کے لیے فریقوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر اتفاق کیا۔
یوکرین میں حکومت اور حزب مخالف کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باوجود دارالحکومت کیو میں ہزاروں مظاہرین موجود ہیں۔
ان میں اکثریت اس معاہدے سے خوش نہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ صدر وکٹر یانوکووچ مستعفی ہو جائیں۔
ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر اور حزب مخالف کے درمیان ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ہونے والا معاہدہ ’’بہت زیادہ حساس‘‘ ہے اور اسے عالمی حمایت کی ضرورت ہے۔
محکمہ خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر تشدد اور ہلاکتوں کے تناظر میں حزب مخالف کے لیے یہ ’’مشکل معاملہ‘‘ ہوگا۔
صدر براک اوباما نے جمعہ کو روس کے صدر ولادیمر پوٹن کو یوکرین کے معاملے پر بات چیت کے لیے فون کیا۔ حکام کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس معاہدے پر جلد عملدرآمد کی ضرورت اور تشدد کے خاتمے کے لیے فریقوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر اتفاق کیا۔
وائٹ ہاؤس نے یوکرین کی پارلیمنٹ کی طرف سے اس معاہدے کی توثیق کا خیر مقدم بھی کیا۔
حکام کے بقول مسٹر پوٹن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ روس اس معاہدے کے نفاذ کے عمل کا حصہ بننے چاہتا ہے۔ انھوں نے یوکرین کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی بات کی۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ کو فون اس معاہدے کا ذاتی طور پر خیرمقدم کیا۔
یانوکووچ اور حزب مخالف کے رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں ملک 2004ء کے آئین کے مطابق چلانے اور صدر کے اختیارات کو محدود کرنے کے علاوہ مخلوط حکومت بنانے اور جلد انتخابات کروانے پر اتفاق کیا گیا۔
یوکرین میں گزشتہ سال نومبر میں اس وقت بڑے پیمانے پر حکومت مخالف شروع ہوئے تھے جب صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ تجاری معاہدے کی بجائے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی۔
اولاً یہ مظاہرے پرامن تھے لیکن رواں ماہ کے اوائل میں یہ پرتشدد شکل اختیار کر گئے اور ان میں اب تک کم ازکم 100 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مرنے والے بعض مظاہرین کو پولیس کے ماہر نشانہ بازوں نے سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔
اس تازہ سمجھوتے کے تحت وزیرداخلہ ویتالی زخارچنکو کو بھی تبدیل کر دیا جائے گا کیونکہ حزب مخالف نے ان پر مظاہرین کی ہلاکت کا الزام عائد کیا۔
ان میں اکثریت اس معاہدے سے خوش نہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ صدر وکٹر یانوکووچ مستعفی ہو جائیں۔
ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر اور حزب مخالف کے درمیان ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ہونے والا معاہدہ ’’بہت زیادہ حساس‘‘ ہے اور اسے عالمی حمایت کی ضرورت ہے۔
محکمہ خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر تشدد اور ہلاکتوں کے تناظر میں حزب مخالف کے لیے یہ ’’مشکل معاملہ‘‘ ہوگا۔
صدر براک اوباما نے جمعہ کو روس کے صدر ولادیمر پوٹن کو یوکرین کے معاملے پر بات چیت کے لیے فون کیا۔ حکام کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس معاہدے پر جلد عملدرآمد کی ضرورت اور تشدد کے خاتمے کے لیے فریقوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر اتفاق کیا۔
وائٹ ہاؤس نے یوکرین کی پارلیمنٹ کی طرف سے اس معاہدے کی توثیق کا خیر مقدم بھی کیا۔
حکام کے بقول مسٹر پوٹن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ روس اس معاہدے کے نفاذ کے عمل کا حصہ بننے چاہتا ہے۔ انھوں نے یوکرین کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی بات کی۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ کو فون اس معاہدے کا ذاتی طور پر خیرمقدم کیا۔
یانوکووچ اور حزب مخالف کے رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں ملک 2004ء کے آئین کے مطابق چلانے اور صدر کے اختیارات کو محدود کرنے کے علاوہ مخلوط حکومت بنانے اور جلد انتخابات کروانے پر اتفاق کیا گیا۔
یوکرین میں گزشتہ سال نومبر میں اس وقت بڑے پیمانے پر حکومت مخالف شروع ہوئے تھے جب صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ تجاری معاہدے کی بجائے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی۔
اولاً یہ مظاہرے پرامن تھے لیکن رواں ماہ کے اوائل میں یہ پرتشدد شکل اختیار کر گئے اور ان میں اب تک کم ازکم 100 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مرنے والے بعض مظاہرین کو پولیس کے ماہر نشانہ بازوں نے سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔
اس تازہ سمجھوتے کے تحت وزیرداخلہ ویتالی زخارچنکو کو بھی تبدیل کر دیا جائے گا کیونکہ حزب مخالف نے ان پر مظاہرین کی ہلاکت کا الزام عائد کیا۔