پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان منگل کو نیویارک میں ملاقات ہوئی، جس میں ترک صدر نے کہا کہ اُن کا ملک اسلامی ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے رابطہ گروپ کے انسانی حقوق کمیشن کے اس وقت کی چیئر یعنی سربراہ کی حیثیت سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حقائق جاننے کا ایک مشن بھیجنے کے انتظامات کرے گا۔
نواز شریف نے صدر اردوان سے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ملاقات میں پاک ترک آزادانہ تجارت معاہدے کی اہمیت کے پیش نظر اسے جلد از جلد منظور کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ دونوں ملک باہمی تجارت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
نواز شریف نے منگل کو جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے سے بھی ملاقات کی جس میں انھوں نے کہا کہ خطے کا ایک مضبوط ملک ہونے کے ناطے جاپان کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے۔
دونوں وزرائے اعظم نے باہمی تجارت میں اضافے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی بات کی۔ پاکستان اور جاپان کی باہمی سالانہ تجارت کا حجم 1.86 ارب امریکی ڈالر ہے۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے وزیر خارجہ جان کیری اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان پیر کو ہونے والی ملاقات کے اہم نکات کے بارے میں کہا کہ جان کیری نے وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ پاکستان میں تمام دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم ہونی چاہیئں۔ ان کے مطابق جان کیری نے کشمیر میں جاری تشدد اور خاص طور پر بھارتی فوجی اڈے پر حملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اس کے علاوہ کیری نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو محدود کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کے جواب میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان دیگر ملکوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے انسداد کی زیادہ کوششیں کر رہا ہے اور دنیا اس کی کوششوں کی معترف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی کشمیر میں حملے پر تشویش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت میں پاکستان سے در اندازی ہو رہی ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ جب تک بھارت کی طرف سے جارحیت بند نہیں ہوتی پاکستان اس معاملے پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم نواز شریف نے وزیر خارجہ کیری سے کہا کہ امریکہ بھارت سے بھی ایسا ہی مطالبہ کرے جیسا پاکستان سے کر رہا ہے۔