واشنگٹن اور انقرہ کے مابین شدت پسند گروپ داعش کے خلاف ترک فضائی اڈے کے استعمال کے طریقہ کار پر اختلافات سامنے آرہے ہیں۔
ترکی نے حالیہ دنوں میں ہی امریکہ کو شام کی سرحد کے قریب واقع فضائی اڈہ انجرلک استعمال کرنے کی اجازت دی تھی جسے امریکی حکام داعش کے خلاف کارروائیوں کے ضمن میں بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔
یہ فضائی اڈہ شام کی سرحد سے صرف 110 کلومیٹر دور ہے اور یہاں سے پرواز کرنے والے امریکی طیارے اپنے اہداف تک زیادہ تیزی سے پہنچ سکیں گے۔ اس سے قبل امریکہ، اردن اور بحرین اور خلیج فارس میں اپنے بحری بیڑوں سے طیاروں کو داعش پر حملوں کے لیے بھیجتا آرہا تھا۔
داعش کی طرف سے ترکی میں ہونے والی سرگرمیوں نے صدر رجب طیب اردوان کو اس گروپ کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے ان کے فضائی اڈوں کا استعمال "ایک مخصوص دائرہ کار" کے تحت ہی ہوگا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربے کا کہنا ہے کہ انجرلک کا فضائی اڈہ شام میں "پی وائے ڈی" سے وابستہ کرد ملیشیا کو مدد فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جو داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
لیکن ترک وزارت خارجہ کے ترجمان کہتے ہیں کہ کرد ملیشیا کی معاونت ان کے ساتھ معاہدے میں شامل نہیں۔
انقرہ "پی وائے ڈی" کو باغی کردستان ورکرز پارٹی "پی کے کے" سے منسلک سمجھتا ہے، جو کہ اپنے حقوق کے لیے ترک ریاست کے خلاف تین دہائیوں سے نبرد آزما چلی آرہی ہے۔
پی وائے ڈی نے امریکہ کی فضائی مدد کے ساتھ داعش کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کی ہیں جن میں ترکی کی سرحد کے قریب ایک بڑے علاقے کا قبضہ حاصل کرنا بھی شامل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انجرلک فضائی اڈے کے استعمال کے بارے میں جب تک واضح معاہدہ نہیں ہوگا ممکنہ اختلافات کا راستہ کھلا رہے گا۔