استنبول حملے کا 'ذمہ دار' داعش ہے، امریکہ و ترکی کا الزام

صدر اوباما نے کہا کہ "اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ پوری مہذب دنیا پر اثر انداز ہونے والے نفرت کا پرچار کرنے والے ان نیٹ ورکس کو ختم نہیں کر دیتا۔"

امریکہ کے مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی "سی آئی اے" کے سربراہ جان برینن کہتے ہیں کہ ترکی کے شہر استنبول کے ہوائی اڈے پر ہوئے خودکش بم دھماکے شدت پسند گروپ داعش کے "اخلاقی زوال کا طرہ امتیاز" تھا، اور انھوں نے متنبہ کیا کہ دہشت گرد گروپ امریکہ میں بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

برینن نے بدھ کو یاہو نیوز کو بتایا کہ ترکی کے ہوائی اڈے پر خودکش جیکٹس سے دھماکا کیا گیا اور یہ ایسی چیز ہی جسے بنانا مشکل نہیں ہے۔

"میں انٹیلی جنس کے ایک ماہر کے نقطہ نظر سے پریشان ہوں کہ جو داعش کی صلاحیتوں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنے اور بیرون ملک حملے کرنے کی ان کی کوشش کو دیکھتا ہے۔"

منگل کو اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 42 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس کی ذمہ داری تو تاحال کسی نے قبول نہیں کی لیکن ترکی اس کا الزام عسکریت پسند گروپ پر عائد کر چکا ہے۔

اس واقعے پر ترکی میں سوگ کی فضا برقرار ہے اور بدھ کو قومی پرچم سرنگوں رہا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ترک حکام یہ پیغام دینے کے لیے پرعزم ہیں کہ استنبول بدستور ایک لچکدار رویہ رکھتا ہے۔

حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہوائی اڈے کو صفائی کے بعد کھول دیا گیا اور بدھ کو یہاں پولیس کی بھاری نفری گشت کرتی رہی۔

ترکش ایئرلائنز نے استنبول اور امریکہ کے درمیان چلائی جانے والی پروازوں سمیت اپنی فضائی سروس مکمل طور پر بحال کر دی۔

ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے بدھ کو کہا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہے جو ان کے بقول ترکی کے روس اور اسرائیل کے ساتھ سرد مہری کے شکار تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں کا ردعمل ہو سکتا ہے۔

مختلف عالمی رہنما ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو فون کر کے ان سے اس واقعے پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔

بعد ازاں کینیڈا میں شمالی امریکی رہنماوں کے اجلاس کے موقع پر امریکہ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ان کا ملک "اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ پوری مہذب دنیا پر اثر انداز ہونے والے نفرت کا پرچار کرنے والے ان نیٹ ورکس کو ختم نہیں کر دیتا۔"

ترک صدر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی مذہب اور روایات کا احترام نہیں کرتی۔ لیکن ان کے بقول ترکی دہشت گردی کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑائی کا عزم اور صلاحیت رکھتا ہے۔