امریکی نائب وزیرِ خارجہ کا دورۂ پاکستان، 'امریکہ فضائی رسائی کا مطالبہ دہرا سکتا ہے'

امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن دورۂ بھارت کے بعد جمعرات کو پاکستان پہنچ رہی ہیں جہاں وہ پاکستانی حکام سے خطے کی مجموعی صورتِ حال اور افغانستان کے معاملے پر بات کریں گی۔

امریکی نائب وزیرِ خارجہ ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں جب اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد سرد مہری پائی جاتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے دورے کے دوران افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال اور پاکستان کی فضائی حدود کے راستے افغانستان تک رسائی دینے اور پاکستان کی طرف سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ زیرِ بحث آئے گا۔

یاد رہے کہ امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ ولیم جوزف برنس کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد بائیڈن انتظامیہ کے کسی اعلیٰ سفارت کار کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔

افغان امور کے ماہر اور تجزیہ کار احمد رشید کا کہنا ہے کہ امریکہ کی اعلیٰ سفارت کار شرمن کی پاکستانی حکام سے بات چیت کے دوران امریکہ یہ جاننا چاہے گا کہ پاکستان، طالبان کے حوالے سے مستقبل میں کیا رویہ رکھے گا اور آیا وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ کو اب پاکستان سے پہلے جیسی مدد کی ضرورت نہیں رہی، جان بولٹن

اُن کے بقول دوسری جانب پاکستانی حکام یہ گلہ کر سکتے ہیں کہ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد خطے میں ہونے والی کئی اہم تبدیلیوں کے باوجود اُنہوں نے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے رابطہ نہیں کیا۔

'امریکہ فضائی رسائی کی سہولت کا مطالبہ کر سکتا ہے'

احمد رشید کا کہنا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروپوں کے خلاف فضائی کارروائی کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی ضرورت ہو گی۔

یاد رہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے لیکن احمد رشید کا کہنا ہے پاکستان کے لیے یہ سہولت فراہم کرنا مشکل ہے کیوں کہ پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔

احمد رشید کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے ایسی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوئی عندیہ دیا جاتا ہے تو عوامی سطح پر شاید یہ بات قبول نہ کی جائے۔

دوسری جانب بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے طالبان کا کردار اہم ہو سکتا ہے اور افغانستان میں باہر سے شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے طالبان کا تعاون بھی ضروری ہے۔

'افغانستان سے انخلا کے باوجود پاکستان کا کردار اہم رہے گا'

احمد رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توقع ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات معمول پر آ جائیں اور امریکہ طالبان کی حکومت کو اگر تسلیم نہیں بھی کرتا تو کم ازکم امداد اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے تاکہ افغانستان کے عوام کی معاشی مشکلات کم ہو سکیں۔

اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں بھارت کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی آئے۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات امریکہ کے ساتھ روابط سے مشروط؟

تجزیہ کار احمد رشید کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پروگرام اور عالمی بینک اور دیگر مغربی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعاون کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔

ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کا ایک دوسرے کے ساتھ فعال تعلقات کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور اب واشنگٹن بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسے اسلام آباد سے بات کرنی چاہیے۔

SEE ALSO: امریکی سینیٹ میں افغانستان پر پیش کیے گئے بل کے مضمرات نظر انداز نہیں کر سکتے: پاکستان

اُن کے بقول نائب وزیرِ خارجہ شرمن کا دورۂ پاکستان اس بات کا عندیہ ہے کہ واشنگٹن میں شاید یہ احساس پید ہوا ہے کہ بہر حال پاکستان سے بات چیت جاری رکھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

اُن کے بقول امریکہ پاکستان سے فضائی راہداری کی سہولت حاصل کرنےکا خواہاں ہے لیکن پاکستان کے لیے شاید یہ سہولت فراہم کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ملک کےاندر اس کے سیاسی مضمرات ہو سکتے ہیں اور دوسری جانب طالبان بھی پاکستان سے ناراض ہو سکتے ہیں اس لیے شاید پاکستان یہ فیصلہ شاید جلدی میں نہ کرے۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہ کرے۔

ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے قریبی تعلقات ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان اور چین کے تعلقات میں انتہائی قربت کے باوجود پاکستان بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کا خواہاں ہے۔

احمد رشید کا کہنا ہے کہ اس وقت خطے کا منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو نہایت احتیاط سے سے اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرنا ہو گا۔

امریکہ کی اعلیٰ سفارت کار ایک ایسے وقت پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جب حال ہی میں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کانگرس میں یہ بتا چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا افغانستان کے تناظر میں از سرنو جائزہ لے گا۔