امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی 'خوش آئند' ہے: افغانستان

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں سرکاری اعلان آئندہ ہفتے واشنگٹن میں صدر براک اوباما کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے موقع پر متوقع ہے۔

افغانستان نے ان اطلاعات کا خیرمقدم کیا ہے کہ امریکہ رواں سال افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے ساڑھے پانچ ہزار تک لانے کے منصوبے کو ترک کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں افغانستان کے نمائندے ظاہر طنین نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک شراکت داری کے دائرے میں رہتے ہوئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھے اور فوجیوں کے انخلا بارے نظر ثانی کرے۔

قبل ازیں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ اوباما انتظامیہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد اس سال کے آخر تک کم کرکے 5,500 کرنے کے فیصلے کو ترک کر رہی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فوج نے صدر سے درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان میں زیادہ تعداد میں فوجی رکھیں۔

اگرچہ فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا مگر توقع ہے کہ تقریباً دس ہزار فوجی جو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اگلے سال تک وہیں رہیں گے۔

دریں اثنا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو متفقہ رائے شماری سے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے مشن کی میعاد 17 مارچ 2017 تک بڑھا دی جائے۔

افغانستان میں سیکرٹری جنرل کے خصوصی معاون نکولس ہیسم نے سلامتی کونسل کو داعش کے خلاف انتباہ کیا تھا کہ اگرچہ اس کی افغانستان میں گہری جڑیں نہیں مگر اپنی تنظیموں سے علیحدہ ہونے والے عسکریت پسندوں کو یہ ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کر سکتی ہے۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں سرکاری اعلان آئندہ ہفتے واشنگٹن میں صدر براک اوباما کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے موقع پر متوقع ہے۔

2011 میں افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد 100,000 سے کچھ اوپر تک پہنچ گئی تھی۔

ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ صدر اوباما اپنا اکثر دہرایا جانے والا عزم بھی ترک کرنے پر تیار ہیں کہ جنوری 2017 میں اپنے عہدِ صدارت ختم ہونے تک وہ افغانستان سے تمام امریکی فوجی وطن واپس بلا لیں گے۔