امریکہ پناہ گزینوں کی تعداد اور آبادکاری کے عمل پر نظر ثانی کرے گا

اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو امریکہ میں نہ لا سکنے کی بنیادی وجہ امریکی پالیسی میں جانچ کے عمل کی کڑی شرائط ہیں۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ امریکہ میں مزید شامیوں کو پناہ دینا چاہتی ہے مگر درخواست گزاروں کی مکمل جانچ پڑتال کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے اس تعداد میں غیر معمولی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ نے اکتوبر سے شروع ہونے والے اگلے مالی سال کے دوران کم از کم 10,000 شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اب تک لگ بھگ 1,700 شامیوں کو امریکہ میں آباد کیا جا چکا ہے۔

محکمہ خارجہ میں آبادی، مہاجروں اور ہجرت کی اسسٹنٹ سیکرٹری این رچرڈ نے کہا ہے کہ امریکہ 2017 کے مالی سال میں پناہ کے لیے قبول کیے جانے والے شامیوں کی تعداد میں مزید اضافے پر غور کر رہا ہے مگر 65,000 سے 100,000 مہاجرین کو قبول کرنا ممکن نہیں جس کا مطالبہ قانون سازوں اور کچھ مہاجر گروپ کر رہے ہیں۔

’’ہم اتنے زیادہ لوگوں کی پناہ کی درخواستوں کو اتنی جلدی نمٹا کر انہیں ملک میں نہیں لا سکتے۔‘‘

اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو امریکہ میں نہ لا سکنے کی بنیادی وجہ امریکی پالیسی میں جانچ کے عمل کی کڑی شرائط ہیں۔ امریکہ میں ایسے افراد کو لانے سے پہلے محکمہ داخلی سلامتی کے اہلکار کا درخواست گزار سے انٹرویو، سکیورٹی پڑتال اور طبی معائنہ ضروری ہے۔

’’ہم ہر وقت دنیا بھر میں 70 یا اس سے زائد مقامات پر محدود وسائل کے ساتھ ایسے کیس نمٹا رہے ہیں۔‘‘

’’موجودہ صورتحال میں ایسی درخواست وصول ہونے کے بعد درخواست گزار کے امریکہ پہنچنے تک 18 سے 24 ماہ یا اس سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔‘‘

این رچرڈ نے کہا کہ اوباما انتظامیہ آئندہ مہینوں میں اس بات پر زور دے گی کہ یہ طویل عمل کس طرح مختصر کیا جا سکتا ہے۔

’’مگر میں پھر یہ کہوں گی کہ ہم صرف اسے مزید کارگر بنانا چاہتے ہیں اگر سکیورٹی شرائط پر سمجھوتا کیے بغیر ایسا کیا جا سکے۔‘‘

2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد چالیس لاکھ سے زائد افراد شام چھوڑ چکے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد لبنان، اردن اور ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہے۔