بگرام ایئر بیس پر حملے کے بعد امریکہ، طالبان مذاکرات میں 'وقفہ'

فائل فوٹو

امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں قائم امریکی ہوائی اڈے پر حملے پر 'غم و غصے' کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں چند روز کے وقفے کا اعلان کیا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق، ان ملاقاتوں میں افغان امن عمل اور خطے کے صورتِ حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے ایک ایسے وقت اسلام آباد کا دورہ کیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بگرام ائیر بیس پر طالبان کے حملے کے بعد 'وقفہ' ہو گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول، "خطے میں امن و استحکام کا دار و مدار افغانستان میں قیام امن سے وابستہ ہے۔

انہوں نے امریکی ایلچی خلیل زاد کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ایک مشترکہ ذمہ دار کے طور پر افغان امن عمل میں اپنا مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق، زلمے خلیل زاد نے امریکہ اور طالبان کے وفود کے درمیان دوحہ میں ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات سے متعلق شاہ محمود قریشی کو آگاہ کیا۔

پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ اُس موقع پر اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر پال جونز بھی موجود تھے۔

اس سے قبل جمعے کو اپنے ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ انہوں نے جمعرات کو طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے دوران انہوں نے بگرام ایئر بیس پر بدھ کو ہونے والے حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حملے میں دو شہریوں کی جان گئی جب کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے طالبان کو اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی اور اس بات کا بھی اظہار کرنا ہوگا کہ وہ امن کی کوششوں کے لیے تیار ہیں۔

خلیل زاد نے کہا کہ وہ قطر میں جاری طالبان سے مذاکرات میں ایک مختصر وقفہ کر رہے ہیں، تاکہ طالبان اس اہم معاملے پر اپنی قیادت سے مشورہ کر سکیں۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے زلمے خلیل زاد کے بیان پر تبصرہ کیے بغیر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان اور امریکہ چند روز کے وقفے کے بعد دوبارہ مذاکرات شروع کریں گے۔

اپنے ٹوئٹ میں سہیل شاہین نے کہا کہ وہ اپنی قیادت سے مشاورت کریں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال ستمبر میں معطل ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ ہفتے دوبارہ شروع ہوا تھا۔ پانچ روز تک جاری رہنے والی بات چیت سے متعلق اب تک کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، امریکہ طالبان پر جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر زور دے رہا ہے۔ لیکن طالبان کا مؤقف ہے کہ ان معاملات پر کوئی بھی پیش رفت امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔

'وسیع تر مفاد میں افغانستان کی تنقید کا جواب نہیں دیتے'

ملتان میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں جمہوری عمل اور افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں تشدد کم ہو جبکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات حتمی نتیجے پر پہنچیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بین الافغان مذاکرات بھی ضروری ہیں اور پاکستان اس کی حمایت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات افغانستان کی بیجا تنقید پر پاکستان تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ان کے بقول، پاکستان وسیع تر مفاد میں افغانستان کی تنقید کا ردعمل نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ "اگر ہم ایک دسرے پر الزام تراشی کریں گے تو اس سے ماحول سازگار نہیں ہو گا۔ بہت سارے سوالوں کے جواب ہونے کے باوجود پاکستان خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔"

پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان پر تاحال افغانستان نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔