امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں دور ختم ہو گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پیر کی صبح دوحا میں ختم ہونے والے مذاکرات میں طے پایا ہے کہ دونوں فریقین آئندہ کے لائحۂ عمل پر اپنے رہنماؤں سے مشاورت کریں گے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ مذاکرات کا حالیہ دور طویل اور کامیاب تھا جس کے بعد دونوں فریقین کے درمیان اگلے مرحلے میں جانے سے قبل اپنے اپنے رہنماؤں سے مشاورت پر اتفاق ہوا ہے۔
واضح رہے کہ مذاکرات کے اس دور سے متعلق امریکی حکام نے کہا تھا کہ اس میں امن معاہدے کے نفاذ کے طریقۂ کار اور اور دیگر تیکنیکی معاملات پر غور کیا جائے گا۔
حکام یہ امید بھی ظاہر کر رہے تھے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ 13 اگست تک طے پا جائے گا۔
مذاکرات کا حالیہ دور ختم ہونے کے بعد امریکی حکام کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ اتوار کو امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی خود مختاری اور ایک دیرپا اور باوقار امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی تکمیل کے بعد کسی ملک کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔
یاد رہے کہ طالبان اور امریکہ افغانستان میں امن اور وہاں تعینات غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے گزشتہ سال سے مذاکرات میں مصروف ہیں اور کسی امن معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے آٹھ دور مکمل ہو چکے ہیں۔
ممکنہ امن معاہدے کے تحت طالبان کو افغانستان کی موجودہ حکومت سے مذاکرات اور افغانستان میں جنگ بندی پر آمادہ ہونا ہوگا جب کہ امریکہ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کا پابند ہوگا۔
البتہ کچھ حلقے اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقامی حکومت کے خلاف اپنی شدت پسندانہ کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اتوار کو امن معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ افغان قوم کا مستقبل باہر کے لوگ نہیں بلکہ قوم اپنا مستقبل خود طے کرے گی۔
عید الاضحٰی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مستقبل باہر کے لوگ کسی پڑوسی ملک میں بیٹھ کر طے نہیں کر سکتے۔ افغانستان کا مستقبل افغانستان میں ہی طے ہوگا۔
واضح رہے کہ اشرف غنی اور افغانستان کی حکومت امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا حصّہ نہیں۔ طالبان اشرف غنی اور افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور ان سے بات کرنے سے انکاری رہے ہیں۔
افغان صدر کے اس بیان پر زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ علما کے مطابق عید کا ایک مقصد اپنی انا کی قربانی دینا بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جس امن معاہدے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیے افغان جنگ کے تمام فریقین کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی۔