پاکستان مذہبی آزادی کے حوالے سے دوبارہ خصوصی نگرانی کی فہرست میں شامل

فائل

امریکہ نے ایک بار پھر برما، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان ، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو خصوصی تشویش کے حامل ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے، جہاں میسر مذہبی آزادی پر سوالیہ نشان اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ اقدام سال 1998ء کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے، جس پر جمعے کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ، مائک پومپیو نے کہا ہے کہ مذہبی آزادی کے تحفظ کو ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ دنیا کے ہر خطے میں مذہب اور عقائد کی بنیاد پر ظلم و ستم اور امتیاز برتا جاتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور خلاف ورزیوں کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں امریکہ تندہی سے کام کر رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے 18 دسمبر 2019ء کو برما، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے 1998ء ایکٹ کی رو سے ان ممالک میں شامل ہیں جنھیں خصوصی تشویش کے حامل ملک قرار دیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں ’’مذہبی آزادی کے معاملات میں منظم، جاری اور مختلف النوع قسم کی خلاف ورزیاں‘‘ نہ صرف جاری ہیں بلکہ انھیں برداشت کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی امریکی محکمہ خارجہ نے کوموروز، روس اور ازبکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے اقدام کو جاری رکھا ہے جو خصوصی نگرانی (اسپیشل واچ لسٹ) کی فہرست میں درج ہیں۔ یہ اقدام ان حکومتوں کے خلاف اٹھایا جاتا ہے جو ’’مذہبی آزادی کی شدید نوعیت کی خلاف ورزیوں‘‘ کو برداشت کرتے ہیں یا ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اسی فہرست میں اب کیوبا، نکاراگوا، نائجیریا اور سوڈان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق، سوڈان کو ’اسپیشل واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا گیا ہے، جہاں کی سویلین قیادت والی عبوری حکومت نے ان اقدامات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ حکومت مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی زمرے میں شمار کی جاتی تھی جو ’’منظم، جاری اور مختلف النوع‘‘ قسم کی تھیں، جنھیں برداشت کیا جا رہا تھا یا یہ خلاف ورزیاں جاری رکھی جا رہی تھیں۔

محکمہ خارجہ نے النصرہ محاذ، جزیرہ نما عربستان کی القائدہ، الشباب، بوکو حرام، حوثی، داعش، داعش خوراسان اور طالبان کو ان اکائیوں میں شامل کیا ہے جن کے بارے میں خصوصی تشویش لاحق ہے۔