افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے کا دورہ بھارت: واشنگٹن کو بھارت سے کیا توقعات ہیں؟

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کے مطابق تھامس ویسٹ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور سیکرٹری خارجہ ہرش شرنگلا سے ملاقات کے دوران افغانستان کی تازہ صورتِ حال اور افغانستان میں مشترکہ مفادات کے امور پر بات چیت کی۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے منگل کو نئی دہلی میں بھارت کے حکام سے ملاقات میں افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کے مطابق تھامس ویسٹ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور سیکرٹری خارجہ ہرش شرنگلا سے ملاقات کے دوران افغانستان کی تازہ صورتِ حال اور افغانستان میں مشترکہ مفادات کے امور پر بات چیت کی۔

تھامس ویسٹ پاکستان اور روس کے دورے کے بعد نئی دہلی پہنچے تھے۔ انھوں نے اسلام آباد میں ’ٹرائکا پلس فارمیٹ‘ کے اجلاس میں شرکت کے بعد ماسکو کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے اعلیٰ اہل کاروں سے افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق تھامس ویسٹ نے بھارت میں حکام سے انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مدد، جب کہ افغانستان کے اندر اور باہر عوام کی نقل و حمل سے متعلق امور پر بھی گفت و شنید کی۔

خیال رہے کہ بھارت نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے پاکستان کے راستے ٹرانسپورٹیشن کے طریقۂ کار پر اسلام آباد کی باضابطہ اجازت کا انتظار ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے پر پہنچنے والے افغانستان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بھارت سے گندم کو پاکستان کے راستے بھیجے جانے کی درخواست پر مثبت انداز میں غور کریں گے۔

مبصرین کے مطابق افغانستان میں حکومت کے خاتمے اور طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد اگرچہ بھارت افغانستان میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کھو چکا ہے تاہم اس نے افغانستان سے متعلق امریکہ کی پالیسی پر تاحال کوئی تنقید نہیں کی۔

نئی دہلی افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کی الگ الگ رائے ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران بھارت افغانستان کی تعمیر نو میں کافی سرگرم تھا البتہ اب اسے اپنے لیے ایک جگہ تلاش کرنا پڑے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: 'علاقائی طاقتوں کا کردار بہت اہم ہے'

امریکہ کو افغانستان میں بھارت سے کس کردار کی توقع ہے؟ اس سلسلے میں ایک سابق سفارت کار اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ امریکہ نے اگرچہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لی ہیں البتہ یہ سوچنا غلط ہو گا کہ اس کا وہاں کوئی مفاد نہیں ہے۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ اور بھارت سمیت متعدد ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین سے دہشت گردی نہ ہو اور اسے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔

انھوں نے امریکہ کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیم داعش امریکہ پر حملہ کرنے کے لیے چھ ماہ میں تیاری کر سکتی ہے جب کہ القاعدہ کو اس کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ وہاں امن و استحکام آئے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی جانب سے 10 نومبر کو نئی دہلی میں منعقد کیے جانے والے اجلاس میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں پہلا نکتہ یہی تھا کہ افغانستان کی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں انسانی امداد کی بہت ضرورت ہے۔ وہاں غذائی قلت ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

طالبان کے بھارت سے رابطوں کو پاکستان کیسے دیکھتا ہے؟

لیکن ایک سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کے خیال میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں بھارت کسی حد تک تنہا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے افغانستان کے معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے قریب ہے۔ امریکہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی مدد میں پاکستان کے تعاون کو اہم سمجھتا ہے۔ وہاں جو بھی امداد بھیجی جائے گی وہ پاکستان کے راستے ہی جائے گی۔ وہ اس معاملے میں بھارت پر انحصار نہیں کر سکتا۔

ان کے خیال میں بھارت افغانستان میں عسکری محاذ کی بجائے اقتصادی محاذ پر مدد دے سکتا ہے اور سفارتی اقدامات کر سکتا ہے۔ بھارت افغانستان کو گندم بھیجنے کے لیے تیار ہے لیکن اس نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ ہم پاکستان کے راستے گندم بھیجنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ابھی اس بارے میں واضح طور پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی کہ امریکہ بھارت سے کیا چاہتا ہے یا بھارت افغانستان میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔

ان کے مطابق جب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکتی۔

ان کے خیال میں امریکی نمائندے کے دورے کو اس طرح دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے پاکستان اور دیگر ملکوں کا دورہ کیا تو وہ نئی دہلی بھی آ گئے تاکہ بھارت کو ان سے کوئی شکایت نہ ہو کہ آپ پاکستان گئے مگر یہاں نہیں آئے۔