نصف صدی قبل، ناسا نے خلا بازوں کو چاند پر بھیجا تھا، اور گذشتہ تین عشروں سے اپنی اسپیس شٹل کو زمین کے نچلے مدار میں خلائی مشنوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہے ۔
لیکن بہت سے لوگ جنھوں نے ناسا کا شاندار زمانہ دیکھا ہے، جیسے جانسن اسپیس سینٹر کے ڈائریکٹر کرس کرافٹ ، ناسا کے خلا پیماؤں کو مریخ پر بھیجنے کے منصوبے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یہ منصوبہ سرا سر احمقانہ ہے ۔ اسے تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں۔‘‘
کرافٹ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے ہدف کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ درکار ہے جس میں ابتدائی اور درمیانے مرحلے کے اقدامات، جیسے چاند پر اڈے قائم کرنا شامل ہونا چاہیئے۔ کرس کرافٹ کہتے ہیں’’ہم جانتے ہیں کہ چاند پر کس طرح واپس جایا جا سکتا ہے ۔ یہ ایک قابلِ عمل اور معقول پروگرام ہے ۔ ہم اپنی آج کل کی صلاحیتوں سے اسے انجام دے سکتے ہیں۔‘‘
ناسا کے مشاورتی پروگرام میں یہ مرحلے شامل تھے، لیکن 2010 میں صدر اوباما نے بہت سے سائنسدانوں کی منظوری سے، جو زیادہ پُر عزم ہدف کے خواہاں تھے، اسے منسوخ کر دیا ۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا غلطی تھی، ان میں نیو یارک کے ہائیڈن پلاٹینم کے ڈائریکٹر نیل ڈی گراس ٹائیسن شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میں اس قسم کی لفاظی کو سمجھتا ہوں کہ ہم چاند پر جا چکے ہیں، تو پھر وہاں واپس جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن اس کا اصل جواب یہ ہے کہ ہم چاند پر گذشتہ چالیس برسوں میں ایک بار بھی نہیں گئے ہیں۔‘‘
ٹائیسن کہتے ہیں کہ مریخ کا موجودہ منصوبہ بہت مبہم ہے ۔ ’’میرے خیال میں ہم اپنی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ حقیقی دنیا میں ایسی باتیں ممکن نہیں ہوتیں۔ کاغذ پر جو چیزیں بہت اچھی لگتی ہیں، ضروری نہیں کہ وہ حقیقی دنیا میں بھی قابلِ عمل ہوں۔ ‘‘
رائس یونیورسٹی کے اسپیس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ایلگزینڈر ناسا کی موجودہ مشکلات کا ذمہ دار سیاست دانوں کو قرار دیتےہیں جو فنڈز کو پوری طرح کنٹرول کر تے ہیں۔’’بہت سے لوگ ناسا کو الزام دیتے ہیں کہ اس نے اس چیز کا منصوبہ نہیں بنایا یا یہ یا وہ کام نہیں کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں کانگریس نے جو کچھ کہا ہے، اس کی تعمیل میں انھوں نے بہت سے منصوبے تیار کیے ہیں۔‘‘
لیکن ناسا کی ڈپٹی ایڈمنسٹیٹر لوری گارور کہتی ہیں کہ کانگریس میں خلائی تحقیق و جستجو کے بہت سے پُر جوش حامی موجود ہیں۔’’ ہم رقم مختص کرنے والوں اور ان کے خرچ کا اختیار دینے والوں کے قریبی تعاون سے کام کرتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ناسا کے مستحکم بجٹ کے لیے وسیع حمایت موجود ہے‘‘۔
گارور کا خیال ہے کہ انسانوں کو مریخ پر بھیجنے کے لانچ سسٹم اور دوسری ٹکنالوجی کے لیے، جتنی رقم درکار ہوگی، کانگریس وہ مہیا کر دے گی۔ اس طرح وہ ہدف پورا ہو جائے گا جو کئی عشروں سے ناسا کے ذہن میں تھا۔ وہ کہتی ہیں’’اب یہ معاملہ بالآخر اس مرحلے تک پہنچ رہا ہے جس میں ہم ان صلاحیتوں پر پیسہ لگا رہے ہیں جو ہمیں وہاں تک پہنچا دیں گی اور اس کام میں جتنا وقت لگے گا اس کے بارے میں اب لوگوں نے حقیقت پسندی سے بات کرنا شروع کر دی ہے‘‘۔
لیکن اس سے پہلے کہ یہ سب کچھ واقع ہو ڈیوڈ ایلگزینڈر کا خیال ہے کہ ناسا کے ایڈمنسٹریٹرز کو اور اس ملک کے لیڈروں کو کچھ بنیادی سوالات کے جواب دینے چاہئیں۔ وہ کہتےہیں’’سب سے بڑا سوال جو بہت سے ناقدین پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیوں؟ ہم کہاں جا رہے ہیں، ہم وہاں جا کر کیا کریں گے، اور ہم نے جو یہ اتنی بڑی چیز تیار کر لی ہے، اس کا ہم کیا کریں گے؟‘‘
ایسے وقت میں جب امریکی کانگریس قومی قرض کے مسئلے سے نمٹنے، اور اہم وفاقی پروگراموں کو باقی رکھنے کی جدو جہد میں مصروف ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اور سیارے پر سفر کے لیے، جو مستقبل میں بہت برسوں بعد شروع ہو گا، فنڈز ختم کرنے کا فیصلہ کرے ۔