متنازع بحیرہ جنوبی چین کے قریب امریکی بی 52 طیاروں کی پرواز

فائل فوٹو

پینٹاگان کے پریس سیکرٹری پیٹر کک نے بھی ان پروازوں کی تصدیق کی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں ہے۔

امریکہ کے دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں دو بی 52 بمبار طیاروں نے بحیرہ جنوبی چین کے متنازع جزیروں کے قریب پرواز کیں، جس پر زمین پر موجود چینی اہلکاروں کی طرف سے انہیں انتباہ جاری کیا گیا۔

بحیرہ جنوبی چین کے اس متنازع علاقے میں چین کی طرف سے ایک وسیع علاقے پر ملکیت کے دعوؤں کے بعد ایسا بظاہر پہلی مرتبہ کیا گیا۔

پینٹاگان کے ایک ترجمان کمانڈر بل اربن نے جمعرات کو کہا کہ 8 اور 9 نومبر کو ان بمبار طیاروں نے گوام کے امریکی فضائی اڈے سے اپنا سفر شروع کیا اور وہیں واپس پہنچے، ان کے بقول یہ "سپراٹلی جزیروں کے نواح میں بین الاقوامی فضائی حدود میں معمول کا مشن تھا"۔

ترجمان نے کہا کہ ان طیاروں کو "زمین پر موجود چینی کنٹرولر کی طرف سے دو بار زبانی وارننگ دی گئی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "دونوں طیاروں نے بغیر کسی (رکاوٹ) کے اپنا مشن جاری رکھا اور تمام وقت ان کا یہ آپریشن بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا"۔

پینٹاگان کے پریس سیکرٹری پیٹر کک نے بھی ان پروازوں کی تصدیق کی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے جمعہ کو کہا کہ "سمندری اور فضائی حدود سے گزرنے کے بہانے، چین اپنی خود مختاری اور سلامتی کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘‘

امریکی فوج نے بحیرہ جنوبی چین میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے جسے وہ معمول کی" آزادانہ جہاز رانی" قرار دیتی ہے۔ اس سنمدری علاقے میں چین کی ملکیت کے دعوؤں کے برخلاف برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویت نام بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔

حال ہی میں ایک امریکی بحری جہاز 'یو ایس ایس لاسن' نے سپراٹلی جزائر کی سوبی چٹان سے 11 کلومیٹر کے اندر گشت کیا۔ چین نے گزشتہ سال اس علاقے میں مصنوعی جزیرے بنانے کے ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا تھا جہاں فضائی پٹی اور دوسری سہولتیں بنائی جاسکتی ہیں۔

چین کی طرف سے ان مصنوعی جزیروں کی تعمیر پر اس کے ہمسایہ ممالک کو تشویش ہے۔