امریکہ نے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے تنازع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر پاکستان اور بھارت پُر امن رہیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے متعلق بھارت کے فیصلے پر امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین ایلیٹ ایل اینجل اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینئر رکن سینیٹر بوب مینینڈز نے بھی جمعرات کو پاک بھارت کشیدگی پر مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
دونوں ارکانِ کانگریس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو لائن آف کنٹرول کے پار دراندازی جیسی انتقامی جارحیت سے باز رہنا چاہیے اور اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابلِ عمل کارروائی کرنی چاہیے۔
ارکانِ کانگریس نے مزید کہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کے پاس موقع ہے کہ وہ اجتماع کی آزادی، معلومات تک رسائی اور قانون کے تحت اپنے تمام شہریوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنائے۔
بیان کے مطابق، شفافیت اور سیاسی معاملات میں شراکت، جمہوریت کا بنیادی جُز ہے اور امید ہے کہ بھارت کی حکومت جموں و کشمیر میں ان اصولوں پر کار بند ہو گی۔
اس سے قبل امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کشمیر کے بڑھتے ہوئے بحران پر انہوں نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ سے بات کی ہے۔
سینیٹر گراہم کے بقول، بھارت کو کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے پر پہلے بات کرنی چاہیے تھی۔
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں سینیٹر گراہم نے کہا ہے کہ "امید ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان اور بھارت کو محاذ آرائی پر قابو پانے کے لیے مدد فراہم کرے گی۔"
Hope the Trump Administration will provide assistance to both Pakistan and India to find a way to deescalate the current crisis. The last thing the region and the world needs is further military confrontations between India and Pakistan over Kashmir.
— Lindsey Graham (@LindseyGrahamSC) August 7, 2019
پاکستان کے دورے پر موجود امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے واضح کیا ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے متعلق امریکہ سے مشاورت نہیں کی۔
یاد رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو آئین کی دفعہ 370 اور اس کی ذیلی شق 35 اے کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے منسوخ کردیا تھا۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔
فضائی راستے بھارتی پروازوں کے لیے بند
بھارت کے اس اقدام کے خلاف پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد بھارت کے لیے نامزد اپنے ہائی کمشنر کو بھی نئی دہلی نہیں بھیجے گا۔
پاکستان نے کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام کے ردِ عمل میں دو طرفہ تجارت کو منقطع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جب کہ اس نے اپنے نو میں سے تین فضائی راستے بھی بھارتی پروازوں کے لیے بند کر دیے ہیں۔
فضائی حدود کی بندش سے بھارت سے یورپ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ جانے والی پروازیں متاثر ہوں گی۔
ایئر انڈیا کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے دیگر فضائی حدود بھی بھارتی جہازوں کے لیے بند کر دی جاتی ہیں تو پروازوں کا دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بھارتی کمپنیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Statement on the Situation in Jammu and Kashmir pic.twitter.com/gIou8HGngg
— Dr Mahathir Mohamad (@chedetofficial) August 8, 2019
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملائیشیا عالمی امن اور سکیورٹی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ جموں کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کریں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق حالیہ فیصلوں پر ملائیشیا کو تحفظات ہیں اور اس سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوگا۔ ملائیشیا دیرینہ مسائل کے حل اور امن کے لیے مذاکرات اور مشاورت کے راستوں کو اختیار کرنے پر یقین رکھتا ہے۔