پاکستانی طالبان کمانڈر افغانستان میں گرفتار

(فائل فوٹو)

ایک روز قبل افغان حکام نے امریکی فوجیوں پر لطیف محسود کو ان کی حفاظتی تحویل سے نکال کر اپنے ساتھ لے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔
افغانستان میں تعینات امریکی افواج نے پاکستانی طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر لطیف محسود کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے بھی طالبان کمانڈر کی گرفتار ی کی تصدیق کی ہے لیکن گرفتاری کا مقام اور کارروائی کی نوعیت سمیت دیگر تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔

جمعہ کو واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہرف نے صحافیوں کو بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے شخص کا نام لطیف محسود ہے جو تحریکِ طالبان پاکستان کا سینئر کمانڈر ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق گرفتار شخص 'تحریکِ طالبان پاکستان' کا نائب سربراہ ہے اور 'ٹی ٹی پی' کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا دستِ راست سمجھا جاتا ہے۔

اس سے قبل جمعرات کو افغان حکام نے امریکی فوجیوں پر لطیف محسود کو ان کی حفاظتی تحویل سے نکال کر اپنے ساتھ لے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کی کوششوں کے بعد لطیف محسود کو کرزئی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز میں مدد دینے پر راضی کیا تھا۔

اخبار نے افغان حکام کی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ امریکی فوجی اس وقت لطیف محسود کو افغان سکیورٹی فورسز کی حفاظتی تحویل سے چھڑا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے جب اسے ایک قافلے کی صورت میں افغان صوبے لوگر لے جایا جا رہا تھا۔

'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق افغان حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کی کوششوں کے بعد لطیف محسود کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی 'نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی' کے افسران کے ساتھ ملاقات کے لیے آمادہ کیا تھا اور اسے اسی مقصد کے لیے لوگر لے جایا جا رہا تھا۔

افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے بھی 'واشنگٹن پوسٹ' کےساتھ گفتگو میں امریکی فوج کی اس مبینہ کاروائی کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے لطیف محسود کا نام لینے کے بجائے "ایک اعلیٰ طالبان کمانڈر" کہنے پر اکتفا کیا ہے۔

صدارتی ترجمان نے اخبار کو بتایا ہے کہ کمانڈر کو افغان خفیہ ادارے کے مرکز لے جایا جا رہا تھا جب ایک امریکی فوجی دستے نےقافلہ رو ک کر اسے زبردستی اپنی حراست میں لے لیا اور اپنے ساتھ 'بگرام ایئر بیس' لے گئے۔

قیاس کیا جارہا ہے کہ پاکستانی طالبان کمانڈر کو اپنی تحویل میں لینے کے امریکی اعلان کے بعد افغانستان کی حکومت خصوصاً صدر کرزئی کی جانب سے اس پر سخت ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔

خیال رہے کہ صدر کرزئی گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں امریکی افواج کی کاروائیوں پر کڑی تنقید کر رہے ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔