افغان مشن سے متعلق تمام آپشنز زیرِ غور ہیں: امریکہ

فائل فوٹو

امریکہ نے کہا ہے کہ افغان مشن کے مستقبل سے متعلق فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن تمام آپشنز زیرِ غور ہیں۔

امریکہ کی جانب سے یہ بات ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط میں خبردار کیا تھا کہ امریکہ یکم مئی کو افغانستان سے تمام افواج کے انخلا پر غور کر رہا ہے جب کہ دیگر آپشنز بھی زیرِ غور ہیں۔​

خط میں اینٹنی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی پر زور دیا تھا کہ وہ امن عمل کو تیز کرنے کے لیے امریکہ کی تجاویز پر غور کریں۔ بصورتِ دیگر افغان حکومت کو طالبان سے تنہا ہی نمٹنا ہو گا۔

اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے جب امریکی محکمۂ خارجہ سے رابطہ کیا تو ترجمان کا کہنا تھا کہ "ہم غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ مبینہ خط و کتابت پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔"

ترجمان نے بتایا کہ "ہم نے یکم مئی کے بعد افغانستان میں اپنے فوجیوں کے مزید قیام کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تمام آپشنز بدستور ٹیبل پر موجود ہیں۔"

امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگون) نے پیر کو تصدیق کی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظرثانی ابھی باقی ہے۔ جب تک یہ معاملہ مکمل نہ ہوجائے اس وقت تک امریکی افواج کے افغانستان میں مستقبل کے بارے میں انتظار کرنا ہو گا۔

SEE ALSO: بلنکن کا غنی کو خط، 'پالیسی بدلیں ورنہ تنِ تنہا طالبان کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا'

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ کسی بھی سطح پر فورسز کی وطن واپسی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ان کے بقول یہاں ہر کوئی ڈیڈ لائن میں اضافے کی توقع رکھتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں۔

البتہ سینئر افغان حکام اور حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے تصدیق کی ہے کہ صدر اشرف غنی اور افغانستان کی امن کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو افغان امن عمل سے متعلق تجاویز پر مبنی امریکی وزیرِ خارجہ کا خط موصول ہوا ہے۔

کابل میں پیر کو منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ زلمے خلیل زاد کے دورۂ کابل سے دو روز قبل مذکورہ خط صدر اشرف غنی اور ان کے حوالے کیا گیا تھا۔

اسی تقریب سے خطاب میں امریکی نائب صدر امراللہ صالح نے کہا کہ ان کی حکومت کسی دستاویز کے مندرجات سے پریشان نہیں اور نہ ہی وہ اس طرح کے کسی امن منصوبے کے لیے تیار ہے۔

اطلاعات ہیں کہ امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے امن عمل میں پیش رفت کے لیے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز دی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'امریکہ افغانستان سے گیا تو خانہ جنگی شروع ہو جائے گی'

امراللہ صالح کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کا یہ استحقاق ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ افغانستان میں غیر ملکی افواج کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کریں یا کانفرنسز کا اہتمام کریں۔ لیکن ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم کسی اور کے ٹائم ٹیبل کے مطابق کوئی معاہدہ نہ کریں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا یقینی بنانا ہے۔

امریکی حکومت نے جہاں ایک جانب امن معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے وہیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے روس، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے جانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ ​

امریکی وزیرِ خارجہ کے خط میں کیا ہے؟

امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے صدر غنی کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ "جنابِ صدر میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ واشنگٹن میں ہماری پالیسی پر غور ہو رہا ہے اور امریکہ کسی بھی آپشن کو مسترد نہیں کر سکتا۔ ہم یکم مئی کو امریکی فوج کے مکمل انخلا کے علاوہ دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔"

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال اور طالبان کے مزید علاقوں پر قبضے کے خدشے کے پیشِ نظر بلنکن نے اشرف غنی سے کہا کہ "میں آپ پر اسی لیے واضح کر رہا ہوں شاید آپ کو میرے لہجے سے اندازہ ہو کہ ہمیں اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔"

بلنکن نے کہا تھا کہ امریکہ اقوامِ متحدہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے جو افغان امن عمل کے لیے متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر تبادلۂ خیال کریں۔ امریکی وزیرِ خارجہ کے خط کے مطابق، یہی وہ ممالک ہیں جنہیں افغان تنازع کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

اینٹنی بلنکن نے خط میں مزید لکھا ہے کہ "وہ ترکی سے بھی کہیں گے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ طالبان اور افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کانفرنس کی میزبانی کرے جس میں امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔ میں صدر غںی سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنا وفد یہاں بھیجیں۔"