بین الاقوامی برادری اگلے ہفتے برسلز میں افغانستان پر بین الاقوامی اجلاس میں شریک ہوگی، جس میں کلیدی معاملات پر پیش رفت کے شواہد پر غور و خوض کیا جائے گا۔ یہ بات سفیر رچرڈ اولسن نے کہی ہے ،جو امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان ہیں۔
منگل، چار اکتوبر کو منعقد ہونے والی اِس کانفرنس کی میزبانی یورپی یونین اور افغانستان کی قومی وحدت پر مشتمل حکومت کریں گی، جس میں توقع ہے کہ 70 سے زائد ممالک اور درجنوں بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے شرکت کریں گے۔
تقریباً 15 برس کی لڑائی اور بین الاقوامی امداد میں ملنے والے اربوں ڈالر کی مالی اعانت کے بعد بھی افغان حکومت کو ابھی بین الاقوام مدد درکار ہے۔ تاہم، اولسن نے کہا ہے کہ بلا وجہ مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔
سفیر اولسن نے کہا کہ ’’افغانستان کے لیے امریکہ اور بین الاقوامی حمایت ’بلینک چیک‘ نہیں۔ ہماری مدد کے کچھ شرائط ہیں، یہ افغان پیش رفت سے مشروط ہے‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات جمعرات کے روز ’جانز ہاپکنز یونیورسٹی‘ کے اعلیٰ مطالعے کے بین الاقوامی اسکول میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان کے لیے قابلِ قدر مدد کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے ہماری مجموعی استعداد افغان حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے کہ وہ مؤثر ساجھے دار کے طور پر ہمارے ساتھ کس طرح کام کرتی ہے‘‘۔
اولسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ چار معاملات ایسے ہیں جو بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ بقول اُن کے،’’سب سے پہلے، انسداد بدعنوانی، انتخابی اصلاحات، مالیاتی استحکام سے متعلق إصلاحات اور انسانی حقوق، جن میں خواتین کے حقوق شامل ہیں‘‘۔
إصلاحات کا پروگرام
برسلز کے اجلاس میں افغان حکومت کی جانب سے اصلاحات کے ایک حقیقت پسندانہ پروگرام کی توثیق کی جائے گی، تاکہ اگلے چار برسوں کے دوران ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام، ریاست کی تعمیر اور ترقی کو جاری رکھنے کے لیے بین الاقوامی سیاسی اور مالیاتی اعانت جاری رکھنے کو یقینی بنایا جا سکے۔
جولائی میں وارسا میں نیٹو کے سربراہ اجلاس کے بعد اس سال یہ افغانستان سے متعلق دوسری بین الاقوامی کانفرنس ہوگی، جہاں امریکہ اور دیگر نیٹو ارکان نے افغان سکیورٹی اداروں کو تربیت، مشارت اور اعانت کی فراہمی جاری رکھنے کا عہد کیا تھا۔
اُنھوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ افغان سکیورٹی اور دفاعی افواج کے لیے افغان حکومت کو 2020ء تک ہر سال 5 ارب ڈالر کی امداد دی جاتی رہے گی، جس میں سے خاصی رقم امریکہ ادا کرے گا۔