روس اور امریکہ کے تعلقات کا تجزیہ

امریکہ اور روس کے صدور

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ تخفیف اسلحہ کے معاملے میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے لیکن افغانستان اور ایران میں، اور واشنگٹن اور ماسکو میں، اب بھی کئی بنیادی مسائل میں اختلافات موجود ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے روس کے ساتھ بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی عنصر قرار دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس حوالے سے کامیابیوں کے علاوہ بعض امور پر اختلافات بھی موجود ہیں۔

گذشتہ چار سال کے دوران، تعلقات کو از سرِ نو قائم کرنے کے نتیجے میں، بعض ٹھوس نتائج برآمد ہوئے۔ ان میں تخفیف اسلحہ کا اہم معاہدہ شامل ہے جس کے تحت دور فاصلے تک جانے والے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تعداد کم کر دی گئی۔


کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگ وولڈ کہتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان قریبی تعلقات کی ایک اور علامت وہ فیصلہ ہے جس کے تحت امریکی فورسز کو روس کے راستے افغانستان میں آنے جانے کی اجازت مل گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ افغانستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران اپنی کارروائیوں کو جاری رکھنے میں، اور اب فوجوں کو کم کرنے اور انہیں واپس لے جانے کے لیے، یہ سہولت، یعنی سازو سامان اور فوجیوں کو شمال کی طرف لے جانے کی صلاحیت، بہت اہم ہے۔‘‘

رابرٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ امریکہ وہ روسی فوجی اڈہ استعمال کر سکتا ہے جو قزاقستان کے ساتھ روس کی سرحد کے 300 کلو میٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ اڈا سازو سامان اور فوجیوں کے نقل و حرکت میں اہم رول ادا کرے گا جب امریکہ کے لڑاکا فوجی اگلے دو برسوں میں افغانستان سے اپنی موجودگی ختم کریں گے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک اور مسئلے کے بارے میں، جس کا تعلق ایران سے ہے ، ماسکو کا رویہ گذشتہ چند برسوں میں زیادہ سخت ہو گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایران کے مبینہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کے سلسلے میں اس پر جو زیادہ سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، روس نے ان کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ وہی پالیسی ہے جس پر امریکہ اور دوسرے مغربی ملک زور دیتے رہے ہیں۔ ماسکو نے تہران کو S-300 طیارہ شکن میزائلوں کی فراہمی بھی منسوخ کر دی ہے۔

ماؤنٹ ہولیوک کالج کے اسٹیفن جانز کہتے ہیں کہ روس ایران کے ساتھ تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ایران اور روس کی سرحد پر غیر مستحکم صورتِ حال قائم رہے۔ ان کے مطابق ’’حال ہی میں ، وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں امریکہ اور ایران کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کی حمایت کی گئی ہے۔ یہ چیز اہم ہے۔ روسی اس صورت حال کو طے کرنے کے خلاف نہیں ہیں، چاہے اس کا مطلب یہ کیوں نہ ہو کہ مذاکرات کی میز پر روس موجود نہیں ہو گا۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ تخفیف اسلحہ کے معاملے میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے لیکن افغانستان اور ایران میں، اور واشنگٹن اور ماسکو میں، اب بھی کئی بنیادی مسائل میں اختلافات موجود ہیں۔ ان میں سر فہرست یہ سوال ہے کہ شام کے بحران سے کیسے نمٹا جائے۔

اوباما انتظامیہ نے صدر بشار الاسد سے کہا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔ ماسکو اس کے خلاف ہے اور اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قرار دادوں کو ویٹو کر دیا ہے۔ ان میں وہ قرار دادیں بھی شامل ہیں جن میں شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

اسٹیفن جانز کہتے ہیں کہ ماسکو صدر اسد پر کچھ دباؤ ڈال سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے۔

’’اس وقت تو ایسا نہیں لگتا کہ اسے ایسا کرنے میں کوئی دلچسی ہے۔ دراصل روس یہ نہیں چاہتا کہ شام میں حکومت تبدیل ہو۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اسد کو معزول کیا جائے کیوں کہ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ اس کی جگہ جو کوئی بھی آئے گا اسے حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل ہو گی اور وہ روس کے خلاف ہو گا۔ شام روس کے ہتھیاروں کا بڑا اچھا گاہک ہے ۔ لہٰذا ، شام میں حکومت کی تبدیلی روس کے لیے خاصی تباہ کن ہو گی۔ اور میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ وہ اسد کو اقتدار میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

اوباما انتظامیہ کے ساتھ ایک اور اختلافی مسئلہ وہ منصوبہ ہے جس کے تحت یورپ میں بلسٹک میزائلوں کے حملے سے بچاؤ کی دفاعی ڈھال قائم کی جائے گی۔ نیٹو اس تجویز کی حمایت کرتی ہے۔

واشنگٹن اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ اس دفاعی ڈھال کا مقصد ایران جیسے ملکوں کی طرف سے میزائلوں کے ممکنہ حملوں سے یورپ کو بچانا ہے۔ ماسکو نے کہا ہے کہ جب یہ میزائل شکن نظام نصب ہو جائے گا تو اس کی اسٹریٹجک میزائل فورس بے اثر ہو جائے گی، اور روس مغربی ملکوں کے حملوں کی زد میں آ جائے گا۔


ایک بار پھر کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگ وولڈ کہتے ہیں۔ ’’روسیوں نے مبالغے سے کام لیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے ذریعے واقعی امریکہ اور نیٹو روس کے نیوکلیئر دفاعی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ اور نیٹو کی نیت یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہےکہ اس معاملے میں انہیں یقین دلانا بہت مشکل ہے۔‘‘


تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر اوباما اپنی صدارت کی دوسری مدت میں بھی امریکہ اور روس کے تعلقات پر اتنی ہی توانائی صرف کریں گے جتنی انھوں نے اپنی صدارت کی پہلی مدت میں صرف کی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی تمام تر توجہ مشرق وسطیٰ اور ملک کے مالیاتی مسائل پر ہے اور روس کے ساتھ تعلق ان کی اولین ترجیح نہیں ہے۔