روس کو تنہا کرنے کی امریکی پالیسی مخمصے کا شکار

روسی صدر پوٹن ایرانی اور ترکی صدورہمراہ (فائیل فوٹو)

بائیڈن حکومت تو یہ کہنا پسند کرتی ہے کہ یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس عالمی سطح پر تنہا رہ گیا ہے۔ لیکن اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ماسکو کے اعلی عہدیداروں کو دیکھا جائے تو وہ بہ مشکل ہی کریملن تک محدود نظر آتے ہیں اور اب تو خود امریکہ بھی بات کرنا چاہتا ہے۔

روسی صدر ولاڈی میر پوٹن ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت جن کا ملک نیٹو کا رکن بھی ہے عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اور ان کے اعلی سفارتکار وزیر خارجہ سرگئی لاوروف دنیا بھر میں گھومتے پھر رہے ہیں وہ مسکراتے، لوگوں سے ہاتھ ملاتے اور غیر ملکی لیڈروں کے ساتھ تصویریں بنوانے کے لئے پوز دیتے نظر آتے ہیں۔ اور ان میں بعض ایسے لیڈر بھی بھی ہیں جو امریکہ کے دوست ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنن

بدھ کے روز تو خود امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی کہا کہ وہ امریکی نظربندوں کی رہائی اور یوکرین سے متعلق مسائل پر وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ تبادلہ خیال کے لئے مہینوں کی امریکہ کی اعلی سطحی سفارتی دوری کو ختم کرناچاہتے ہیں۔ فی الحال فون کال کا کوئی وقت طے نہیں ہوا ہے لیکن آنے والے دنوں میں اس کی توقع کی جارہی ہے۔

یہ مصافحے اور فون کالز امریکہ کی اس حکمت عملی کے ایک بنیادی حصے کے بارے میں شکوک شبہات پیدا کرتے ہیں جس کا مقصد یو کرین کی جنگ کو ختم کرانا ہے۔ روس کی سفارتی اور معاشی تنہائی اور اسکے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں ناکامیاں آخر کار روس کو مجبور کر دیں گی کہ وہ پسپائی اختیار کرے۔

ایک طرف امریکی وزیر خارجہ نے خود کال کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے مگر ساتھ ہی بلنکن کا اصرار ہے کہ روس حقیقتاً تنہا رہ گیا ہے۔ اس کے اعلی عہدیداروں کے دورے محض ہونے والے نقصان کے ازالے کی کوشش اور عالمی سطح پر اس نکتہ چینی کا رد عمل ہیں جس کا ماسکو کو یوکرین پر حملے کی وجہ سے سامنا ہے۔

امریکی عہدیدار کہتے ہیں کہ روس کچھ ایسے اتحادوں کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن کو وہ فراموش کیے ہوئےتھا ۔

ان میں کچھ امریکہ مخالف ملک ہیں جیسے کہ ایران۔ لیکن مصر اور یوگنڈا جیسے ملک جو بظاہر امریکہ کے شراکت دار ہیں وہ بھی گرمجوشی سے اعلی روسی حکام کا استقبال کر رہے ہیں۔

فروری سے برابر یہ کہتے رہنے کے بعد کہ روس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ سفارتکاری کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اب امریکہ نے مان لیا ہے کہ اسے ماسکو سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔

تاشقند میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے جمعے کے روز لاوروف نے کہا کہ وہ بلنکن کے ساتھ فون پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن کسی براہ راست رابطے کے لئے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ماسکو واپس نہ پہنچ جائیں۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)