امریکی سفارتخانوں میں کم تنخواہ پر گارڈز تعینات کیے جائیں

گذشتہ برس ستمبر میں لیبیا میں امریکی سفارتخانے پر ایک حملے میں امریکی سفارتکار کرس سٹیونز اور دیگر تین امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔ حملے کے وقت امریکی سفارتخانے کے باہر کوئی مقامی گارڈ موجود نہیں تھا۔
امریکی قانون ساز 1990 میں بنائے گئے ایک ایسے قانون کو دوبارہ وضع کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں جس کی رُو سے امریکی محکمہ ِ خارجہ امریکی سفارت کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے کانٹریکٹ کی بنیاد پر کم سے کم تنخواہ پر سیکورٹی گارڈز کے لیے بولی دے سکے گا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس قانون کی رُو سے ہزاروں سیکورٹی گارڈز کو ان کی کارکردگی کی بجائے کم تنخواہ کی بنیاد پر ملازمت دی جائے گی۔

گذشتہ برس ستمبر میں لیبیا میں امریکی سفارتخانے پر ایک حملے میں امریکی سفارتکار کرس سٹیونز اور دیگر تین امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔ حملے کے وقت امریکی سفارتخانے کے باہر کوئی مقامی گارڈ موجود نہیں تھا۔

تقریبا ڈیڑھ سال قبل پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے میں جو کہ ایک بڑی سی عمارت اور کمپاؤنڈ پر مشتمل ہے، مقامی گارڈز تین روز کی ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ جس سے پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی سیکورٹی خطرے کی زد میں رہی۔

حکومتی اخراجات کی مد کا ایک بل جو اس ہفتے کانگریس سے بھی منظور ہو چکا ہے، امریکی محکمہ ِ خارجہ کو افغانستان، پاکستان اور سیکورٹی کے لحاظ سے پر خطر علاقوں اور ملکوں میں مقامی گارڈز کو کانٹریکٹ کی بنیاد پر کم پیسوں میں ملازمت دینے کی اجازت دیتا ہے۔

ڈیموکریٹک سینیٹر روبرٹ مینیڈیز اور ریپبلکن سینیٹڑ باب کُروکر خارجہ امور کی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ مقامی گارڈز کی بھرتی کے طریقہ ِ کار میں مستقل تبدیلی لانی چاہیئے یا نہیں؟

سابق وزیر ِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل یکم فروری کو کانگریس سے کہا تھا کہ امریکی سفارتخانوں اور سفارت کاروں کی سیکورٹی کے لیے مقامی سیکورٹی گارڈز کے لیے کانٹریکٹ ’’کم سے کم قیمت پر قابل ِ قبول ملازمت‘‘ کی بنیاد پر دینا چاہیئے۔

کیمرون منٹر جو 2011ء میں اُس وقت پاکستان میں امریکی سفیر تھے جب سیکورٹی گارڈز تین روز تک ہڑتال پر چلے گئے تھے کا کہنا ہے کہ، ’’کوئی بھی سفارت کار یہی چاہے گا کہ سفارت خانے کے گارڈز ایسے کسی بھی نازک وقت میں مستعد و چوکس ہوں اور اس کام کے لیے پوری طرح اہل بھی۔‘‘

کیمرون منٹر کا مزید کہنا تھا کہ، ’’اگر ہم گذشتہ برس لیبیا میں امریکی سفارت کار کرس سٹیونز کی موت سے سبق سیکھیں تو وہ یہ ہے کہ ہمیں رقم کو قدرے مختلف انداز میں خرچ کرنا سیکھنا ہوگا اور اصل مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں بروقت معلومات میسر ہوں تاکہ ہم اپنی حفاظت یقینی بنا سکیں‘‘۔