انسانی حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ: پاکستان اور بھارت کی صورتِ حال پر اظہارِ تشویش

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے گفتگو کر رہے ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے 2020 میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔

منگل کو امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق پامال کرنے والے اکثر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں جب کہ بھارت میں شہری آزادیوں، آزادیٔ صحافت پر قدغن، عدم برداشت اور ماورائے عدالت ہلاکتوں جیسے مسائل ہیں۔

البتہ، رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال میں بہتری آئی ہے۔

رپورٹ میں پاکستان سے متعلق کیا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق پامال کرنے کے مرتکب افراد اکثر مواقع پر سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، نظر بندی اور حراست کے علاوہ تشدد پر مبنی سزائیں دینے کا سلسلہ اب بھی برقرار ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ پر تاحال پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

البتہ، ماضی میں حکومتِ پاکستان اور سیکیورٹی ادارے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کے حوالے سے امریکہ سمیت عالمی برادری کے خدشات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی، صحافیوں کے خلاف تشدد، بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر سخت پابندیاں، آزادانہ نقل و حرکت پر سختیاں، کرپشن، خواتین پر تشدد کے واقعات کا سلسلہ 2020 میں بھی جاری رہا۔

Your browser doesn’t support HTML5

انسانی حقوق کی پامالی پر رپورٹ کتنی درست ہے؟


البتہ رپورٹ میں بعض حکومتی اقدامات کی تعریف بھی کی گئی ہے جن میں جیلوں کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے لیے 'پریزن اکیڈمیز' کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے قیدیوں میں انتہا پسندانہ رُحجانات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

رپورٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواجہ برادران کو 15 ماہ تک بغیر کسی ثبوت کے قید میں رکھا گیا جب کہ میر شکیل الرحمٰن کو 34 سال پرانے کیس میں گرفتار کیا گیا۔

بھارت سے متعلق رپورٹ میں کیا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، پریس اور اظہار کی آزادی پر پابندی، مذہبی آزادی پر قدغن اور بدعنوانی سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد معاملات پائے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت متعدد اقدامات اٹھا رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر میں گزشتہ سال جون تک 32 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بعض ریاستوں میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے من مانی گرفتاریوں اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے سخت اور خطرناک حالات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کا تحفظ جمہوری معاشروں میں ممکن ہوتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان میں شروع سے ہی سیکیورٹی فورسز کو زیادہ اہمیت دی گئی، اُنہیں زیادہ وسائل دیے گئے جب کہ اب عام آدمی بھی یہی سوچتا ہے کہ مسائل کا حل سیکیورٹی اداروں کے پاس ہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان ہو یا بھارت، آزادی اظہار کی پیاس ایک جیسی

ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں سیکیورٹی اداروں کو جواب دہ ٹھیرانا بہت مشکل ہو گا کیوں عوام یہ قبول نہیں کریں گے جب کہ حکومتیں بھی ایسا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمے داری سیاسی جماعتوں کی ہے۔

سینئر تجزیہ کار اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزادی سے متعلق حالات انتہائی خراب ہیں۔

ان کے بقول حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں اور انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

بھارت کی جانب سے اس رپورٹ پر تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن اس سے قبل انسانی حقوق کی خلاف روزیوں سے متعلق اس قسم کی رپورٹس کو بھارت مسترد کرتا رہا ہے۔