امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے تمام فریقین سے تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ موسمِ بہار میں اپنی کارروائیوں کو ترک کر دیں تاکہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔
یہ مطالبات روس کی میزبانی میں جمعرات کو ہونے والی افغان امن کانفرنس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں سامنے آئے ہیں۔
یہ ایک روزہ کانفرنس افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بلائی گئی تھی اور اس کا انعقاد ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان جنگ کے خاتمے اور امن کے لیے گزشتہ برس ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت یکم مئی کو تمام غیر ملکی افواج کو واپس اپنے ملک جانا ہے۔
لیکن بعض حلقوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر غیر ملکی طاقتیں کسی سیاسی تصفیے کے بغیر افغانستان سے نکلیں تو افغانستان افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔
افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ستمبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ تاہم اب تک اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔
تاہم روس کے دارالحکومت ماسکو میں جمعرات کو منعقدہ کانفرنس میں افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کی طرف سے پولیٹیکل ڈپٹی ملا عبدالغنی برادر نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔
کانفرنس میں امریکہ، پاکستان اور میزبان روس کے نمائندے بھی شریک تھے۔
کانفرنس کے مشترکہ بیان میں افغان فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں اور افغانستان کو ایک آزاد، خود مختار، پرامن، متحد، جمہوری اور خود کفیل ملک بنانے کے اقدام کی حمایت کریں اور ملک کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک کریں۔
مشترکہ بیان میں افغانستان میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور دیگر کے حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ "ہم اسلامی امارات کی بحالی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ افغان حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔"
واضح رہے کہ طالبان افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے "اسلامی امارات" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب کانفرنس کے میزبان ملک روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لارؤف کا کہنا ہے کہ ماسکو افغانستان میں قیام امن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن افغان رہنماؤں کو مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔
کانفرنس کے آغاز پر اپنے ابتدائی کلمات میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سفارتی بات چیت اور سمجھوتوں کے ذریعے ہی امن لایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے جو بھی معاہدہ ہوگا، اس میں تمام فریقین کے مفادات کو شامل رکھا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی طاقت جیسے کہ روس کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے اندر موجود افواج کے لیے مذاکرات کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے خطے کی دیگر طاقتوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا کہا ہے اور اسی سلسلے میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا تصور بھی پیش کیا گیا تھا جس میں طالبان کو بھی شامل کرنے کی تجویز تھی۔
SEE ALSO: امریکی فوج کا جلد بازی میں انخلا دنیا کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے: افغان وزیرِ داخلہامریکہ کے اس تصور کی افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے بھرپور مخالفت کی گئی۔ جن کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے انتخاب کے لیے الیکشن ہی واحد راستہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا تصور ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب بائیڈن انتظامیہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر نظر ثانی بھی کر رہی ہے۔
بائیڈن حکومت کا اس معاہدے کے بارے میں مؤقف ہے کہ یہ معاہدہ مضبوط بنیادوں پر نہیں ہوا۔
امن معاہدے کی شرائط کے تحت طالبان نے فروری 2020 کے بعد سے افغانستان میں غیر ملکی افواج کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا۔ البتہ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن تک غیر ملکی افواج نے افغانستان سے انخلا یقینی نہ بنایا تو وہ انہیں نشانہ بنائیں گے۔