سیاہ فام امریکی کے قتل کے خلاف مظاہرے

فروری میں فلوریڈا میں ایک نہتے افریقی امریکی نوجوان لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے سے ایک بار پھر امریکہ میں نسل کے مسئلے پر توجہ مرکوز ہوئی ہے ۔ بعض امریکیوں کا خیال ہے کہ اس لڑکے کو محض اس لیے ہلاک کیا گیا کیوں کہ وہ سیاہ فام تھا۔ جس ہسپانوی نسل کے سفید فام رضاکار نے اس لڑکے کو گولی ماری، اُس نے اِس الزام سے انکار کیا ہے۔

امریکہ بھر میں ٹرائے وون مارٹن کی ہلاکت پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظاہرین انصاف کے حصول کے لیے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔

مارٹن وہ سترہ سالہ لڑکا ہے جس کا محلے میں گشت کرنے والے رضاکار جارج زمرمین سے تصادم ہوا جس نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مارٹن کے والدین کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا ہے ۔ زمرمین کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنا دفاع کر رہا تھا ۔ مقامی، ریاستی اور وفاقی حکام اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں، لیکن اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے ۔

مارٹن گھرانے کے وکیل بینجمن کرمپ کہتے ہیں’’ہمیں پکا یقین ہے کہ ٹرائے وون مارٹن کی ہلاکت کی وجہ محض یہ ہے کہ اسے اس کی نسل کی بنیاد پر مجرم سمجھا گیا۔‘‘


زمرمین کے حامی اس سے انکار کرتے ہیں، لیکن بہت سے امریکیوں کا اصرار ہے کہ اصل بات یہی ہے ۔
بوبی رش امریکی کانگریس کے ان ارکان میں شامل ہیں جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نسل کی بنیاد پر ہونے والی نا انصافی کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک وفاقی کمیشن قائم کیا جائے۔’’مسٹر اسپیکر، نسل کی بنیاد پر کسی کو مشتبہ فرد سمجھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے ۔ محض اس لیے کہ کوئی ایسا سوئٹر پہنے ہوئے ہے جس سے سربھی ڈھکا جاتا ہے، اسے چور اچکّا نہیں سمجھنا چاہیئے ۔‘‘

جس رات مارٹن ہلاک ہوا ، اس نے ایسا سوئٹر پہنا ہوا تھا جس سے سر بھی ڈھکا جا سکتا ہے۔ ا ب ہزاروں لوگ ایسے ہی سوئٹر پہنے ہوئے ہیں اور اس طرح وہ نسل کی بنیاد پر لوگوں کی درجہ بندی کے خلاف احتجاج کر رہےہیں۔ یونیورسٹی کے طالب علم کرس بللوک کہتے ہیں’’میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اپنا ایسا سوئٹر پہن کر باہر جانے کا حق ہونا چاہیئے اور مجھے یہ فکر نہیں ہونی چاہیئے کہ کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ میں اس کے لیے خطرہ بنا ہوا ہوں۔‘‘

شہری حقوق کے سرگرم کارکن کالے لوگوں کو ڈرائیونگ میں دشواریوں کا حوالہ بھی دیتےہیں۔ ہوتا یہ ہے پولیس مبینہ طور پر ٹریفک کے اسٹاپس پر افریقی امریکیوں کو نشانہ بناتی ہے کیوں کہ پولیس والوں کا خیال ہے کہ کالے لوگ زیادہ جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔

نسل کی بنیاد پر جرم کا شبہ کرنے سے برابر کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ لیکن بہت سے افریقی امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ زیادتی عام ہے، اور وہ اس میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واشنگٹن کی ہاوورڈ یونیورسٹی میں افرو امریکن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گریگ کار کہتے ہیں’’سیاستداں عام طور سے اعداد و شمار کو اہمیت دیتے ہیں، اور جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ نسل کی بنیاد پر کارروائیوں کی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں، اور پھر خود کو اس طرح منظم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں قانون بن سکتا ہے، تو پھر لابی انگ شروع ہو جاتی ہے، اور لوگ قانون پر عمل در آمد کے بارے میں اور عام معاشرے میں زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔‘‘

کینڈنس ہاؤس نارتھ کیرولائنا میں یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’میرے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں فیصلے اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ کیسے نظر آتے ہیں۔ ہم لوگوں کے افعال کو جانچنے اور یہ سمجھنے کے لیے کہ وہ اچھے لوگ ہیں یا نہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘‘

بعض افریقی امریکی والدین اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ اگر حکام انہیں روک لیں، تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ ہائی اسکول کے طالب علم افروجن بیپٹسٹ بتاتے ہیں کہ انہیں ان کی والدہ نے کیا سمجھایا ہے ۔’’انھوں نے مجھے سڑک پر نکلتے وقت حفاظتی تدابیر کے بارے میں بتایا ہے، اور کہا ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیئے، اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات سے با خبر رہنا چاہیئے ۔‘‘

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس مشورے سے اتنا فرق پڑ سکتا ہے جتنا زندگی اور موت میں ہے ۔